Inquilab Logo

ہائی کورٹ کے فیصلےکیخلاف مدرسہ تنظیموں کی سرگرمیاں تیز

Updated: March 28, 2024, 11:29 PM IST | Hameedullah Siddiqui | Lucknow

سپریم کورٹ میں داخل کرنے کیلئے اسپیشل لیوپٹیشن تیار کر لی گئی، مدرسہ تنظیموں کےایک وفد کی بی جے پی اقلیتی مورچہ کے قومی صدر جمال صدیقی سے ملاقات۔

The legal problems faced by madrasas in UP are getting complicated and organizations are active to solve them.Photo: INN
یوپی میں مدارس کو درپیش قانونی مسائل پیچیدہ ہوتے جارہے ہیںجن کے حل کیلئے تنظیمیں سرگرم ہیں۔ تصویر : آئی این این

ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد سےایک طرف جہاں حکومتی سطح پر سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں وہیںمدارس سے وابستہ تنظیمیں بھی سرگرم ہوگئی ہیں۔حکومت مدرسوں کو بند کرنے کے امورپرلائحہ عمل تیارکررہی ہے تو مدرسہ تنظیمیں سیاسی و قانونی چارہ جوئی میں مصروف ہیں۔ذرائع کے مطابق مدرسہ تنظیموں کی جانب سے ماہر وکلاء سے رائے مشورہ کے بعدہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ’ایس ایل پی ‘تیارکرالی گئی ہے اور یکم اپریل کوسپریم کورٹ میں داخل کرنے کاارادہ ہے۔ وہیں تنظیموں سے وابستہ افراد کے ایک وفد نے دہلی میںبی جے پی دفتر پہنچ کر اقلیتی مورچہ کے قومی صدر سے ملاقات کرکے سیاسی طور پر بھی مسئلے کے حل کی کوشش کی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: امراؤتی سے نونیت رانا کو بی جےپی کا امیدوار بنانے کی شدید مخالفت، نونیت کی متحد ہونے کی اپیل

آل انڈیا ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ کے قومی جنرل سیکریٹری وحید اللہ خان سعیدی ، قومی نائب صدرطارق شمسی، قومی ترجمان عتیق الرحمان مولانا عبداللہ بخاری و دیگرممبر ان مجلس عاملہ دہلی میں موجود ہیں۔حاجی دیوان زماں خاں کی ٹیم کے لوگ بھی دہلی میں سرگرم ہیں۔ وحید اللہ خان سعیدی نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے ماہر وکلاء سے رائے مشورہ کے بعد آن ریکارڈایس ایل پی تیار کر لی گئی ہے۔ یکم اپریل کو سپریم کورٹ کھلتے ہی ایس ایل پی داخل کر دی جائےگی۔ منیجرس ایسو سی ایشن مدارس عربیہ اتر پردیش،آل انڈیا ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ اور ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ اتر پردیش کانپور کی جانب سے ایس ایل پی ایک ساتھ داخل کی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ معاملہ آئینی بنچ  سے متعلق ہے اس لئے سپریم کورٹ کے کانسٹی ٹیوشنل معاملات کے ماہر و نامور وکیل ابھیشیک منو سنگھوی،مکل روہتگی، ڈی ایس پٹوالیہ ودیگر ماہر وکلا ءکی خدمات حاصل کرنےکی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس سلسلے میں جمعرات کو دہلی میں بی جے پی دفتر پہنچ کرایک وفد نے بی جے پی اقلیتی مورچہ کے قومی صدر جمال صدیقی سے ملاقات کی اور مدارس کے مسائل سے واقف کرایا۔اس دوران اترپردیش اقلیتی کمیشن کے چیئرمین اشفاق سیفی بھی موجود رہے۔ جمال صدیقی نے روزنامہ’انقلاب‘ کو بتایا  کہ ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ کےوفد کی باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ان کے مسائل کے حل کےلئے ہرممکن کوشش کی جائےگی۔پارٹی اور حکومت کی سطح پربھی صورتحال سے واقف کرایا جائےگا اورحل کی تدابیرپربھی غورکیا جائےگا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ضروری ہے کہ سبھی مدرسہ تنظیمیں آپسی اختلافات کو درگزر کر ایک پلیٹ فارم پرمتحد ہوکرجدوجہد کریں تاکہ نتیجہ خیز مقام پرپہنچنے میں آسانی ہو۔ اترپردیش اقلیتی کمیشن کے چیئرمین اشفاق سیفی نے بھی وفد کو یقین دلایاکہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جو بھی مدددرکار ہوگی وہ حکومت سے دلائی جائے گی۔
مدارس سے وابستہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے ماہر اور نامور وکلاء کی خدمات حاصل کرنے کیلئے بہت بڑی رقم کی ضرورت ہے،اس لئے سبھی سے تعاون کی گزارش کی جارہی ہے۔ دوسری جانب عام اساتذہ کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں سب سے پہلے مدرسوں کے’صاحب نصاب‘  منیجراورپرنسپل حضرات سے رابطہ کیا جانا چاہئے کہ وہ اپنے مخصوص فنڈ سےاس کاانتظام کریں۔اسکے علاوہ جو اسا تذہ تنظیمیں ماہانہ یاسالانہ ممبرشپ فيس جمع کراتی ہیں وہ بھی اپنے فنڈ کا استعمال کریں اور تب بھی بات نہه بنے تو دیگر اسا تذہ سے بھی تعاون حاصل کرنے پرغور کیا جائے۔
واضح رہے کہ ۲۲؍ مارچ کو یوپی ہائی کورٹ کی جانب سے مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ ۲۰۰۴ء کو غیر قانونی قرار دئے جانے کے باعث مدرسہ بورڈ سے منظور شدہ مدارس کے بند ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ یوپی میں فی الحال۵۶۰؍ مدرسے سرکاری امداد یافتہ ہیں جبکہ ۱۵؍ ہزار سے زائد مدر سے مدرسہ بورڈ سے منظور شدہ ہیں۔ ان اداروں میں ۲۶؍لاکھ سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔ حالیہ فیصلے کے بعد نہ صرف اساتذہ و طلباء بلکہ ان مدارس کے وجود پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK