Inquilab Logo Happiest Places to Work

مرکز کےمقررہ معیار کے سبب ادیداس اور نائیکی مصنوعات اسٹور سے غائب ہوسکتی ہیں

Updated: June 11, 2025, 10:27 PM IST | New Delhi

مرکز کے مقرر کردہ معیار کے سبب ادیداس اور نائیکی جیسےعالمی برانڈ کی مصنوعات ہندوستانی اسٹور سے غائب ہو سکتی ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

وزیر صنعت  پیوش گوئل ’’میک ان انڈیا‘‘ مہم کو تقویت دینے کیلئے  درآمدی اشیا پر معیار کی جانچ کو سخت کر رہے ہیں۔ کئی عالمی کمپنیاں اسے ایک سرکاری پیچیدگیوں کا میدان قرار دے رہی ہیں۔ مہنگے غیرملکی کھیلوں کے جوتوں اور دیگر مصنوعات کیلئے مشہور بین الاقوامی برانڈ جیسے نائیکی، ادیداس اور پیوما ۲۰۲۶ء کے آخر تک ہندوستانی بازار سے غائب ہو سکتے ہیں۔کیونکہ ان تمام برانڈز کو ہندوستانی معیارات بیورو (بی آئی ایس )سے معیاری تصدیق نامہ (سرٹیفیکیشن) حاصل کرنا ضروری ہے۔لیکن یہ صرف اسپورٹس شوز کی بات نہیں۔ مصنوعات کی ایک وسیعفہرست  اب ’’کوالٹی کنٹرول آرڈرز‘‘ کے دائرے میں آ گئی ہیں اور ان پر بی آئی ایس کا معیاری مہر لازمی ہے۔ ان میں روزمرہ کی اشیا جیسے پریشر ککر، گیس چولہے، بیٹری سیل، موبائل چارجرز کے ساتھ ساتھ صنعتی مصنوعات جیسے سیمنٹ اور سٹیل اسٹرپس شامل ہیں۔ اہم بات یہ کہ۱۴؍ سال سے کم عمر بچوں کے لیے بنائے گئے تمام کھلونوں کو بھی بی آئی ایس سے تصدیق شدہ ہونا ضروری ہے۔اس میں لیگو بھی شامل ہے، جو اپنے معیار کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس کمپنی کا مؤقف ہے کہ اس کی مصنوعات۱۴؍ سال سے زائد عمر کے صارفین کے لیے ہیں (جو شاید ایک بہانہ ہے) اور اسے کھلونوں کے معیار کے تحت نہیں آنا چاہیے۔ تاہم، وہ بھی اس پابندی کا شکار ہو گئے ہیں۔
  مارچ میں بی آئی ایس  نے امیزون اور فلپ کارٹ کے گوداموں پر ملک بھر میں چھاپے مارے۔ لکھنؤ، دہلی، گڑگاؤں کے علاوہ جنوب میں تمل ناڈو کے کوئمبٹور، سریپیرمبودور اور تروولیور جیسے شہروں میں یہ کارروائی ہوئی۔ بی آئی ایس نے ہزاروں ایسی اشیا ضبط کر لیں جو ناقص معیار کی تھیں یا جن پر بی آئی ایس کا معیاری کنٹرول مہر موجود نہیں تھا۔فلپ کارٹ کے ایک گودام سے تقریباً چھ لاکھ روپے مالیت کے سینکڑوں کھیلوں کے جوتے ضبط کیے گئے۔ جوتے اور کھلونے ضبط شدہ اشیا کی دو بڑی اقسام تھیں، اس کے ساتھ ا سٹینلیس ا سٹیل کے پانی کی بوتلیں بھی تھیں – زیادہ تر بڑے مینوفیکچررز کی بنائی ہوئی ہیں۔ پریس انفارمیشن بیورو کی ریلیز میں کہا گیا: ’’ تلاشی آپریشن کے دوران، بی آئی ایس معیاری مہر کے بغیر مختلف اشیا بشمول انسولیٹڈ فلاسکس، انسولیٹڈ فوڈ کنٹینرز، میٹلک پوٹیبل واٹر بوتلیں، سیلنگ فینز اور کھلونے (کل مالیت ۳۶؍ لاکھ روپے) ضبط کی گئیں۔
 پیوش گوئل کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں فروخت ہونے والی مصنوعات اعلیٰ معیار کی ہونی چاہئیں، جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ عمل درآمد میں ہے۔معیار کی تصدیق کے لیے،  بی آئی ایس اہلکاروں کو فیکٹریوں کا دورہ کرنا ہوتا ہے – جو اکثر بیرون ملک ہوتی ہیں۔ بہت سی کمپنیوں نے اپنے بیرون ملک فیکٹریوں کا دورہ کرنےکیلئے بی آئی ایس اہلکاروں کے اخراجات اٹھانے کی پیشکش کی ہے، جسے جانبداری کے اندیشے کے تحت قبول نہیں کیا گیا ہے۔اب تک، بی آئی ایس معائنہ کاروں نے بیرون ملک صرف چند ہی دورے کیے ہیں۔
ایک ریٹیل ماہر نے خبردار کیابرانڈز کو خدشہ ہے کہ اگر  بی آئی ایس چھاپے مار کر آف لائن دکانوں تک پہنچ گیا تو پوری ریٹیل ایکو سسٹم درہم برہم ہو سکتی ہے۔ ابھی تک انہوں نے ایسا نہیں کیا ہے – لیکن یہ خدشہ ہے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔تاہم گوئل نے ایک اہم محرک کے بارے میں کھل کر بات کی، انہوں نے کہا ہندوستان چاہتا ہے کہ غیرملکی کمپنیاں ویت نام یا انڈونیشیا سے درآمدات چھوڑ کر یہاں فیکٹریاں لگائیں۔ فٹ ویئر برانڈز پر اس کا سب سے زیادہ دباؤ ہے۔ جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ کمپنیوں کو بھارت میں پلانٹس لگانے کے لیے بڑے پیمانے پر فروخت درکار ہے۔ مزید برآں، ہندوستانی (رجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنرشپ) جیسے تجارتی بلاکس میں شامل نہیں ہے، اس لیے ہندوستان  میں بنی برآمدات پر ٹیرف (محصولات) لگتے ہیں۔ اور ہندوستان کے ریگولیٹری پیچیدہ جال میں راستہ تلاش کرنا سرخ فیتہ اور پیچیدگیوں کا ایک چکر دار سفر ہو سکتا ہے۔ بی آئی ایس کا تصدیق نامہ بھی کوئی ایک بار کا معاملہ نہیں ہے – منظوریوں کو دوبارہ حاصل کرنا پڑتا ہے، جس سے مزید غیر یقینی پیدا ہوتی ہے۔یگر ممالک بھی اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت اصرار کرتی ہے کہ وہ صحیح راستے پر ہے۔ بہت سی بڑی عالمی کمپنیاں اس سے اختلاف کرتی ہیں،اور اس نظام کو ایک ’’ سرکاری پیچیدگیوں کا میدان‘‘ قرار دیتی ہیں۔

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK