Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایئر انڈیا طیارہ کریش: جاں بحق ہونیوالے ۲۴۱؍ مسافر، سب کی اپنی زندگی، اپنی کہانی

Updated: June 14, 2025, 4:00 PM IST | Ejaz Abdul Gani/Agency | Mumbai

ایئر انڈیا طیارہ حادثہ میں عملہ سمیت ۲۴۲؍ افراد سوار تھے جن میں سے صرف ایک مسافر بچ سکا۔ جاں بحق ہونے والوں کی اپنی زندگی تھی اور اپنی کہانیاں تھیں۔ جانئے ایسے ہی چند مسافروں کی زندگیوں کے بارے میں۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ڈومبیولی کی ایئر ہوسٹس روشنی بھی احمدباد طیارہ حادثہ میں ہلاک

آنجہانی روشنی سونگھرے۔ تصویر: آئی این این
انتہائی غربت کے باوجود ایئر ہوسٹس بننے کا خواب شرمندہ تعبیر کرنےوالی بیٹی کو کھو کر والدین کی دنیا اُجڑ گئی
گزشتہ روز احمد آباد سے لندن جانے والا طیارہ صرف چند منٹ کی پرواز کے بعد ہی حادثہ کا شکار ہوگیا تھا۔ اس اندوہناک سانحہ میں ۲۴۱ افراد ہلاک ہوگئے جن میں ڈومبیولی میں رہائش پذیر ۲۷ سالہ ایک ایئر ہوسٹس بھی شامل ہے۔ 
 تفصیلات کے مطابق ڈومبیولی مشرق کے راجا جی پتھ پر واقع نو اُمیہ کرپا سوسائٹی میں روشنی سونگھرے اپنے والدین کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔ اس سے قبل روشنی کا خاندان گرانٹ روڈ میں نہایت چھوٹے گھر میں مقیم تھا۔ روشنی کی والدہ گھر گھر جاکر کام کرتی تھیں جبکہ والد معمولی ٹیکنیشین تھے۔ دو سال قبل ہی روشنی اپنے والدین کے ہمراہ ڈومبیولی شفٹ ہوئی تھی۔ روشنی بچپن ہی سے ایئر ہوسٹس بننا چاہتی تھی۔ اس خواب کو پورا کرنے کیلئے اس نے سخت محنت کی .تاہم کوئی نہیں جانتا تھا کہ خواب دیکھنے اور اسے پورا کرنے کا حوصلہ رکھنے والی لڑکی کی زندگی اتنی جلدی ختم ہوجائے گی۔ اس بارے میں روشنی کے ماموں پروین سکھدرے نے بتایا کہ روشنی اسکول کے زمانے سے ہی ذہین اور پر عزم تھی۔ ایئر ہوسٹس بننے کے بعد اس نے دو سال تک اسپائس جیٹ میں کام کیا پھر ایئر انڈیا سے منسلک ہوگئی۔ کچھ دن قبل وہ اپنے آبائی وطن گئی تھی جہاں دادا دادی سے ملاقات کرنے کے بعد وہ سیدھے احمد آباد چلی گئی۔ دو روز قبل اس نے گھر والوں کو لندن جانے کی اطلاع دی تھی۔ حادثہ کی اطلاع ملتے ہی مقامی رکن اسمبلی رویندر چوہان نے متعلقہ حکام سے بات چیت کرکے روشنی کے اہل خانہ کو ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کا یقین دلایا۔ 
شوہر کے یوم پیدائش پر لندن پہنچ کر سرپرائز دینے کی خواہش نے جان لے لی 

 ہر پریت کے دادا اس کی تصویر دکھاتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این
احمدآباد طیارہ حادثہ میں  فوت ہونےوالی اندور کی ۲۸؍ سالہ ہرپریت کور ہورا نے اگر اپنے سفر کا پروگرام تبدیل نہ کیا ہوتا تو شاید وہ زندہ ہوتی۔ بنگلور کے آئی ٹی شعبہ میں کام کرنےوالی ہرپریت کو ۱۹؍ جون کو لندن جانا تھا مگر ۱۶؍ جون کو شوہر کےیوم پیدائش پر اسے سرپرائز دینے کیلئے اس نے اپنا پروگرام تبدیل کرلیا اور حادثے کا شکار ہو گئی۔ ہرپریت کے شوہر رابی ہورا لندن میں  آئی ٹی شعبے میں  ملازمت کرتے ہیں۔ ہرپریت کے خسر کے بھائی راجندر سنگھ ہورا نے بتایا کہ ’’اسے ۱۹؍ جون کو لندن جانا تھالیکن ۱۶؍ جون کو رابی کا برتھ ڈے تھا، اس میں  شرکت کیلئے اس نے ۱۲؍ جون کا ٹکٹ بک کرلیا۔ میاں  بیوی نے لندن سےیورپ کی سیر پر جانے کا پروگرام بنایاتھا مگر ایک لمحہ میں  سب کچھ ختم ہوگیا۔ اندور میں  مقیم ہر پریت کی رشتہ کی بہن درشیت ہورا نےبتایا کہ ’’ہرپریت کی شادی ۲۰۲۰ء میں  ہوئی تھی۔ شوہر رابی ۲۔ ۳؍ سال سے لندن کی ایک کمپنی میں  کام کررہاہے، ہر پریت بنگلور میں  کام کرتی تھی، اس کی کمپنی نے اسے گھر سے کام کرنے کی اجازت دی تھی اس لئے وہ لندن جارہی تھی کہ وہیں سے کام کریگی۔ ‘‘
کوئی زندگی کی نئی شروعات کرنے جارہاتھا تو کوئی برسوں بعد بیٹے سے ملنےکیلئے مشتاق تھا
دنیش کمار پہلی بار طیارہ میں  بیٹھے تھے، یہی ان کا آخری سفر ثابت ہوا، رتی لال بیٹے کا نیا گھر دیکھنے جارہے تھے مگر اب بیٹا ان کی آخری رسومات کی تیاری پرمجبور ہے
  زندگی کی نئی شروعات کا وعدہ، باپ بیٹے کی برسوں بعد ملاقات کی خوشی اور ایک خاندان کی محبت اور جشن کی تیاری، سب کچھ ایک لمحے میں اس وقت بکھر کر ختم ہوگیا جب لندن جانے والا ایئر انڈیا کا بوئنگ۷۸۷؍ ڈریم لائنر طیارہ احمد آباد سے روانگی کے ایک ہی منٹ بعد گنجان آبادی والے علاقے میتھانی نگر میں گر کر تباہ ہو گیا۔ ہندوستان کی تاریخ کا یہ بدترین فضائی حادثہ بن گیاہے جس میں  نہ صرف طیارہ میں موجود ۲۴۲؍ میں سے ۲۴۱؍ افراد ہلاک ہوگئے بلکہ کریش کی وجہ سے بی جے میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں  بھی کم از کم ۲۴؍ افراد ہلاک ہوگئے۔ 
 برطانیہ میں  بسنے کا خواب موت کے ساتھ ختم
 گجرات کے دھنیرہ میں   تھاور گاؤں سے تعلق رکھنے والا نوجوان جوڑا کملیش چودھری اور ان کی بیوی دھاپوبین برطانیہ میں بسنے جا رہے تھے۔ برسوں کی محنت سے انہوں نے یہ خواب سجایا تھا لیکن وہ خواب طیارے کے ساتھ ہی بکھر گیا۔ اب ان کے لواحقین کے ہاتھوں میں ویزا کاغذات یا ایئرپورٹ کی گلے ملتی تصویریں اور یادیں باقی ہیں۔ 
پہلی بار جہاز میں  بیٹھے، آخری سفر ثابت ہوا
  دنیش کمار پٹیل جنہوں  نے زندگی بھر کسانی کی پہلی بار ہوائی جہاز میں بیٹھے تھے۔ لندن اپنے بیٹے سے ملنے جارہے تھے۔ دوستوں نے کھیت میں ان کیلئےالوداعی تقریب رکھی تھی اور ’’تو کل چلا جائے گا تو میں کیا کروں گا‘‘ بجایاکرانہیں  الوداع کہاتھا۔ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ یہ گانا ان کیلئے نوحہ بن جائےگا۔ 
 رتی لال بیٹے سے ملنےلندن جارہے تھے
 ۷۱؍ سالہ رتی لال پٹیل اپنے بیٹے تیجس سے ملنے لندن جا رہے تھے جس نے وہاں  اپنے لئے ایک نئی دنیا بسائی تھی اور والدین کو اس خوشی میں  شامل کرنا چاہتا تھا۔ تیجس نے نیا گھر خریدا تھا اور والد کو مدعو کیا تھا۔ جب خاندان نے رتی لال کو ایئرپورٹ پر الوداع کیا تو خوشی اور جوش کا ماحول تھا مگر کچھ ہی گھنٹوں بعد وہی خوشی ناقابلِ یقین دکھ میں بدل گئی۔ حادثے کی خبر آئی کہ رتی لال بھی اس سانحے میں چل بسے۔ 
انکیتاشوہر کے پاس رہنے جارہی تھی
 نو بیاہتا انکتابین پٹیل لندن میں  زندگی کی نئی شروعات کرنے جارہی تھی۔ حال ہی میں  لندن میں  مقیم واسنت کمار پٹیل سے اس کی شادی ہوئی تھی اور ویزا ملنے کے بعد وہ پہلی بار شوہر سے ملنے جا رہی تھی۔ جیسے ہی ویزا ملا، خاندان نے خوشی کا اظہار کیا اور دعا کے ساتھ رخصت کیا لیکن یہ سفر انکیتا کی زندگی کا آخری سفر بن گیا۔ 
شادی کے ۲؍ دن بعد بھاوک مہیشوری نے دنیا کو الوداع کہہ دیا
  ۲۶؍ سالہ بھاوک مہیشوری کی ۲؍ دن پہلے ہی شادی ہوئی تھی۔ وہ لندن میں   ملازمت کرتا تھا اور چونکہ اسے واپس جاناتھا اس لئے منگل کو اس کی سادہ سی کورٹ میرج ہوئی تھی۔ والدین کا منصوبہ تھا کہ اگلی چھٹی جب وہ لوٹ کرآئے گا تو شادی کا شاندار عشائیہ منعقد کریں  گے مگر قسمت میں  کچھ اور ہی لکھاتھا۔ اپنے آنسوؤں  کو مشکل سے ضبط کرتے ہوئے بھاوک کے والد ارجن مہیشوری نے بتایا جمعرات کی دوپہر بیٹے میں  آخری بات چیت ہوئی۔ ’’اس نے ایئر پورٹ کے اندرسے مجھے فون کیا اور بتایا کہ سب کچھ اچھے سے ہوگیاہے اور پلین ٹیک آف کیلئے تیار ہے۔ ‘‘
 چائے کی دکان کے باہر سورہا بچہ بھی حادثے کی زد میں آگیا
 ۱۴؍ سالہ آکاش پٹنی اُس طیارہ میں نہیں تھا جو حادثے کا شکار ہوا۔ وہ بی جے میڈیکل کالج کے پاس اپنے والد کی چائے کی دکان کے قریب درخت کے نیچے سو رہاتھا۔ آکاش کی خالہ چندا بین نے روتے ہوئے بتایا کہ ’’آکاش چائے کی دکان سے تھوڑی دوری پر اسپتال کے ہاسٹل کی دیوار کے قریب ایک درخت کے نیچے سو رہاتھا، ماں  دکان پر چائے بنا رہی تھی۔ اچانک لوہے کا ایک ٹکڑا آکاش پر گرا اور پھر وہ جلنے لگا۔ ‘‘
 پائلٹ سمیت سبروال اپنے والد سے وعدہ وفا نہ کرسکے
احمدآباد میں حادثے کا شکار ہونےوالے ایئر انڈیا کے طیارہ کے پائلٹ سمت سبھروال نے اپنےوالد سے وعدہ کیاتھا کہ وہ لندن پہنچتے ہی انہیں  فون کریں  گے اور جلد ہی ملازمت چھوڑ کر پورا وقت ان کے ساتھ گزاریں  گے اوران کی دیکھ بھال کیا کریں گے۔ ’’سبھروال ممبئی میں رہتے تھے مجرد تھے اور خود اپنے والد کا خیال رکھتے تھے۔ ان کے بوڑھے باپ کا رو رو کر برا حال ہے۔ 

۱۰؍ منٹ کی تاخیر نے بھومی کی جانچ بچالی، ایم بی بی ایس اسٹوڈنٹ درِجیش مورکو اپنا بچ جانا کرشمہ ہی لگتاہے

بھومی چوہان میڈیا سے بات کرتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این
بھڑوچ کی رہنے والی بھومی چوہان یہ سوچ کر لرز اٹھتی ہیں کہ اگر ۱۰؍ منٹ کی تاخیر نہ ہوئی ہوتی یا ایئر انڈیا کے اسٹاف نے ان کی منت سماجت سن کر انہیں  اندر جانے دیا ہوتا تو شاید اُن کا نام بھی جمعرات کو ایئر انڈیا کے طیارہ حادثہ کا شکار ہونےوالے افراد کی فہرست میں  ہوتا۔ بھومی لندن میں ہی اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہیں اور۲؍سال بعد چھٹیاں منانے ہندوستان آئی تھیں ۔ ۱۲؍جون کو انھیں لندن واپس جانا تھا، لیکن ٹریفک جام کی وجہ سے وہ ایئرپورٹ پر۱۰؍ منٹ تاخیر سے پہنچیں اور اسی تاخیر نے انھیں ایک نئی زندگی عطا کر دی۔ 
 بھومی نے بتایا کہ’’میری فلائٹ کا وقت دوپہرایک بجکر ۱۰؍ منٹ کا تھا۱۲؍ بجکر ۱۰؍ منٹ سے پہلے ایئرپورٹ پہنچنا تھا۔ راستے میں ٹریفک بہت تھا، مجھے ایئرپورٹ پہنچتے پہنچتے۱۲؍ بجکر ۲۰؍ منٹ ہوگئے۔ میں چیک اِن نہیں کر پائی۔ میری فلائٹ چھوٹ گئی۔ سیکوریٹی اہلکاروں نے مجھے واپس جانے کیلئے کہہ دیا۔ ‘‘ بھومی نے حادثہ کی خبر کے بعد اپنی کیفیت کا تذکرہ بھی میڈیا کے سامنے کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں ایئرپورٹ سے گھر کیلئے لوٹ رہی تھی، تبھی راستے میں مجھے پتہ چلا کہ میں جس فلائٹ میں بیٹھنے والی تھی، وہ حادثہ کا شکار ہو گئی۔ یہ سن کر میرا جسم کانپنے لگا۔ میں بات نہیں کر پا رہی تھی۔ جو کچھ بھی ہوا، اسے سننے کے بعد میں سَن رہ گئی تھی۔ ‘‘ 

درجیش مور۔ تصویر: آئی این این
ایسے ہی خوش قسمت بی جے میڈیکل کالج کےایم بی بی ایس کے سال اول کےطالب علم درِجیش مور بھی ہیں ۔ پالن پور سے تعلق رکھنے والے درجیش کےمطابق’’میں  کھانا کھا کر ہاتھ دھونےکیلئے ہٹا تھا کہ زور دار آواز آئی۔ ایسا لگ کہ زلزلہ آیاہے، پھر خیال آیاکہ شاید پاکستان نے فضائی حملہ کردیاہے۔ ‘‘ درجیش کے مطابق’’۲؍ منٹ کیلئے میں منجمد ہوکر رہ گیاتھا۔ میری سمجھ میں نہیں  آرہاتھا کہ کیا کروں ۔ باہر جاؤں یا وہیں کھڑا رہوں ۔ اندازہ نہیں تھاکہ باہر جانا مجھے بچائے گا یا میری موت کو یقینی بنا دیگا۔ کھڑکیوں  کے شیشے ٹوٹ گئے تھے اور دھول اور دھوئیں  کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آرہاتھا۔ سانس لینا بھی مشکل تھا۔ ‘‘ ہاسٹل کے مطبخ میں  موجود ایک ملازم نےبتایا کہ ’’ہم اس وقت روٹی بنارہے تھے۔ ۳۔ ۴؍ بچے جگہ پر ہی مر گئے۔ کچھ آئی سی یو میں  ہیں۔ ایک خاتون اور اس کا بیٹا کل سے لاپتہ ہیں۔ ‘‘ درجیش اپنی زندگی کو کرشمہ قرار دیتےہیں۔ ان کے مطابق’’اوپر والے نےمجھے بچالیا مگر بہت سوں  کو یہ موقع نہیں ملا۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK