فاسٹ ٹریک عدالت نے ریاستی حکومت کی جانب سے مقدمہ واپس لینے کی درخواست کو بے بنیاد اور غیر اہم قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا، ۶؍ جنوری کو سماعت مقرر۔
ہجومی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئےاخلاق احمد کو بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا۔ تصویر: آئی این این
منگل کو یوپی کی یوگی حکومت کو اس وقت منہ کی کھانی پڑی جب ضلع عدالت نے ایک اہم فیصلہ سناتےہوئے دادری کے محمد اخلاق کے قتل میں ماخوذملزمین کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی درخواست کو خارج کر دیا۔ عدالت کےاس فیصلے نے کیس میں ملزمین کو راحت پہنچانے کی کسی بھی کوشش کو مکمل طور پر روک دیا ہے۔ اب کیس کی اگلی سماعت ۶؍ جنوری ۲۰۲۶ء کو ہوگی۔ذرائع کے مطابق عدالت نے مقدمہ کی واپسی کی درخواست کو غیر سنجیدہ اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔اس موقع پرعدالت نے روزانہ سماعت کا بھی حکم دیا اورپولیس کمشنر اور ڈی سی پی، گریٹر نوئیڈا کو ہدایت دی کہ اگر گواہوں کو تحفظ کی ضرورت ہو تو انہیںسیکوریٹی فراہم کریں۔
واضح رہے کہ قومی راجدھانی دہلی سے متصل اترپردیش کے ضلع گوتم بدھ نگر کے دادری میں ۱۰؍برس قبل ایک مشتعل ہجوم نے فریج میںگائے کا گوشت رکھنے کے جھوٹے الزام میں ۵۲؍ سال کے محمد اخلاق کا بہیمانہ قتل کردیا تھا۔اس واقعہ نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کررکھ دیا تھا۔اس کے بعد راتوں رات دادری ہندوستان میں مشہور ہوگیا۔ اخلاق قتل کیس میں پولیس نے متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے تین نابالغ سمیت ۱۸؍ ملزمین کو گرفتار کیا تھا جن میں ایک ملزم کی ۲۰۱۶ء موت ہوگئی جبکہ باقی ۱۴؍اس وقت ضمانت پر جیل سے باہر ہیں۔یوپی کی بی جے پی حکومت انہیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔اسی وجہ سے اتنے واضح معاملے کے باوجود کیس کی سماعت ۱۰؍ سال تک کھنچ گئی اور اب بھی یوگی حکومت کی کوشش ہے کہ مقدمہ ہی واپس لے لیا جائے ۔
اخلاق کے اہل خانہ کی جانب سےوکلاء یوسف سیفی اور عندلیب نقوی نے بتایا کہ عدالت نے حکومت کی جانب سے دائر کی گئی عرضی کو عدالت نے مکمل طور پر خارج کر دیا ہے اور مقدمے کی سماعت کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عندیہ دیا ہے۔قابل ذکرہےکہ اسی سال اکتوبر میں اتر پردیش حکومت نے ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) کی دفعہ۳۲۱؍ کے تحت ٹرائل کورٹ میں عرضی داخل کر کے ملزمین کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی اجازت مانگی تھی۔ حکومت کا موقف تھا کہ اس اقدام سے سماجی ہم آہنگی بحال ہوگی۔ بی جے پی حکومت نے اپنی عرضی میں یہ دلیل دی تھی کہ عینی شاہدین کے بیانات میں تضاد اور عدم یکسانیت پائی جاتی ہے۔ حکومت کے مطابق ابتدائی بیانات میں ملزمین کی تعداد ۱۰؍ بتائی گئی تھی، تاہم بعد میں سی آر پی سی کی دفعہ۱۶۴؍ کے تحت درج بیان میں مزید ۶؍ افراد کے نام شامل کیے گئے۔ ان میں ارون، پونیت، بھیم، ہری اوم، سونو اور روین شامل ہیں۔حکومت نے یہ بھی کہا کہ عینی شاہدین اخلاق کی والدہ اصغری، اہلیہ اکرامن، بیٹی شائستہ اور بیٹے دانش کے بیانات میں ملزمین کی تعداد بدلتی رہی جبکہ تمام فریق ایک ہی گاؤں بساڑا کےرہائشی ہیں۔ منگل کو عدالت نے ان دلائل کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ محض تضادات کی بنیاد پراس سنگین معاملے میں مقدمہ واپس نہیں لیا جا سکتا۔ اسی لئے انصاف کے تقاضوں کے مطابق سماعت جاری رہے گی۔
دریں اثناء کورٹ کےفیصلے کا مسلم دانشوروں اورسیاسی و سماجی کارکنوں نے خیرمقدم کیا ہے۔ دانشوروں کا کہنا ہے کہ عدالت کا فیصلہ قانون کی بالادستی اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے، جس سے متاثرہ خاندان کیلئے انصاف کی امید برقرار ہے۔ دانشوروں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ریاستی حکومت کی جانب سے کیس واپس لینے کی کوششیں انصاف کے عمل کو کمزور کرنے کے مترادف تھیں۔
مسلم دانشوروں کے مطابق کسی سنگین فوجداری مقدمے میں حکومت کی مداخلت یا سیاسی دباؤ عدالتی نظام پر عوام کے اعتماد کو متاثر کرتا ہے۔ روزنامہ’انقلاب‘ سے گفتگو کے دوران مذہبی ،سیاسی وسماجی رہنماؤں نے کہا کہ عدالت نے واضح پیغام دیا ہے کہ قانون سب کیلئے برابر ہے اور کسی بھی صورت میں مجرموں کو رعایت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مقدمے کی شفاف اور غیرجانبدار سماعت یقینی بنائی جائے تاکہ متاثرہ خاندان کو مکمل انصاف مل سکے۔ اسلامک سینٹر آف انڈیا کے چیئرمین مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کورٹ کے فیصلہ کو انصاف کی بالادستی سےتعبیرکیا اورکہا کہ حکومت کے اس فیصلے پر روک لگانا،جس کے تحت اخلاق قتل کیس کو واپس لئے جانے کی کوشش کی جا رہی تھی،قابلِ ستائش قدم ہے۔ مولانا نے کہا کہ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اخلاق کے قاتلوں کے ساتھ کوئی نرمی نہ برتی جائے اور ملک کے آئین و قانون کے مطابق عدالت کے فیصلے کی روشنی میں انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اخلاق قتل کیس جیسے سنگین اور حساس معاملے میں مقدمہ واپس لینے کا فیصلہ نہ صرف انصاف کے اصولوں کے منافی تھا بلکہ اس سے سماج میں غلط اور مایوس کن پیغام جا رہا تھا۔
سماجوادی پارٹی اور کانگریس کے سینئرلیڈران نے بھی حکومت کی نیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیس واپس لینے کی کوشش سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ بعض عناصر کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔رکن اسمبلی وسابق وزیر شاہد منظورنےکہا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے سے حق اور انصاف کی بالادستی قائم ہوئی ہےاور عدلیہ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ آئین کی محافظ ہے۔ کانپورسے سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی محمد حسن رومی نے حکومت کی نیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیس واپس لینے کی کوشش سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ بعض عناصر کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہےحالانکہ اخلاق کےمعاملہ میں عدالت نے سرکاری ہٹلرشاہی کو جواب دے دیا ہے۔