Inquilab Logo

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی مسلمانوں کیلئے قائم ہوئی تھی، اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا:چیف جسٹس

Updated: February 02, 2024, 7:42 AM IST | Agency | New Delhi

سرکار اقلیتی درجہ کی مخالف ہے، فریقوں کے دلائل مکمل، سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

Aligarh Muslim University is a prestigious institution of the country. Photo: INN
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ملک کا مایہ ناز ادارہ ہے۔ تصویر : آئی این این

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار  پر سپریم کورٹ میں آئینی بنچ کے روبرو سماعت  کے دوران جہاں مودی حکومت اقلیتی کردار کی مخالفت کررہی ہے وہیں حکومت کے موقف پر چیف جسٹس کی بنچ کئی مرتبہ گرفت کرچکی ہے۔ جمعرات کو دونوں فریقوں کی جانب سے دلائل مکمل ہوجانے کے بعد کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ لیکن اس سے قبل کپل سبل نے مرکز کے موقف کی جہاں دھجیاں اڑادیں وہیں  بنچ کی قیادت کررہے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ کے تبصرے نے بھی مرکز کے لئے راہ مشکل کردی ہے۔سماعت کے ساتویں دن اس معاملے میں چیف جسٹس آف انڈیا کا ایک اہم تبصرہ سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اس حقیقت کو نظر انداز  نہیں کیا جاسکتا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی مسلمانوں کے  لئے قائم کی گئی تھی۔چیف جسٹس ڈی وی چندر چڈ کی صدارت والی ۷؍ججوں کی آئینی بنچ اس معاملے میں اس حقیقت کا قانونی جائزہ لے رہی ہےکہ آئین کی دفعہ ۳۰؍ کے تحت کیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارے کے درجے کا دعویٰ کرسکتی  ہے؟ 
بنچ میں سی جے آئی کے علاوہ جسٹس سنجیو کھنّہ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے بی پاردی والا، جسٹس دیپانکر دتّہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ستیش سی شرما شامل ہیں۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنام نریش اگروال اور دیگر کے معاملے میں آئینی بنچ نے سماعت کے دوران یہ واضح کیا کہ اقلیتی ادارے بھی پارلیمنٹ سے قومی اہمیت کے حامل ادارے (انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل ایمپورٹنس) کا درجہ پاسکتے ہیں۔ سماعت کے دوران نریش اگروال ودیگر کی جانب سے بنچ کے سامنے پیش ہوئے سینئر وکیل نیرج کشن کول نے کہا کہ یہ دلیل دینا پوری طرح سے غلط ہے کہ مسلمانوں کے اقلیتی حقوق خطرے میں ہیں۔ بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق نیرج کشن کول نے پوچھا کہ ریزرویشن یا اقلیتوں کے کون سے حقوق چھینےجارہے ہیں؟ ایسا کیا ہو رہا ہے کہ ملک میں سیکولر ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کی بات ہو رہی ہے؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا  ہے۔انہوں نے دلیل دی کہ ملک کے تمام شہری یکساں ہیں۔اس کے جواب میں سی جے آئی چندر چوڑ نے کہا کہ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ایک اقلیتی ادارہ بھی قومی اہمیت کا حامل ادارہ ہوسکتا ہے اور پارلیمنٹ ایک اقلیتی ادارے کو بھی قومی اہمیت کے حامل ادارے کا درجہ دے سکتی ہے ۔ ہم اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں کہ علی گڑھ مسلم  یونیورسٹی کا قیام مسلمانوں کے لئے ہوا تھا اور جب اسے بنایا گیا تھا تو یہ بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) کے طرز پر تھی اور یہ ایک مثال تھی بلکہ ہم یہاں تک کہہ سکتے ہیں کہ یہ مثالی یونیورسٹی ہے۔واضح رہے کہ اے ایم یو اور اولڈ بوائز اسوسی ایشن کی جانب سے سینئر وکلاء راجیو دھون ، کپل سبل ، سلمان خورشید اور شادان فراست پیش ہوئے۔ آخری دن کپل سبل نے بحث کرتے ہوئےاور اپنی حتمی بحث میں کہا کہ ہم کسی بھی تعلیمی ادارے پر یہ ٹھپہ نہیں لگاسکتے کہ وہ انگریزوں کے دور میں قائم کیا گیا تھا اس لئے وہ ان کا وفادار تھا ۔ یہ دلیل ہی بھونڈی اور بالکل غلط ہے۔ سبل نے دلیل دی کہ اگر ایسا ہے تو اس وقت ہندوستانی فوج بھی انگریزوں کے لئے ہی لڑتی تھی، الٰہ آباد یونیورسٹی بھی تبھی قائم ہو ئی تھی اور آئی اے ایس اور آئی پی ایس جیسے عہدہ اور ادارے بھی انگریزوں کے دور میں ہی قائم ہوئے ہیں۔ اس وقت نیتا جی سبھاش چندر بوس نے واضح طور پرجاپان اور جرمنی کا ساتھ دیا تھا  تو کیا ہم ان پر کوئی لیبل چسپاں کرسکتے ہیں؟ حکومت کی جانب سے ایسے دلائل دے کر معاملے کو صرف بھٹکانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اگر حکومت کی دلیل مان لی گئی تو یہ ملک کی تاریخ میں سیاہ دن ہو گا کیوں کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے جہاں کی اکثریت بھی سیکولر ہے اور ہم ایک مائناریٹی کے حقوق چھیننے اور نہ چھیننے پر بحث کررہے ہیں ۔ جج صاحبان کو اس پہلو پر بھی نظر رکھنی ہو گی۔سبل کے بعد سلمان خورشید نے مختصراً اپنے حتمی دلائل پیش کئے جن میں تکنیکی پہلوئوں پر زیادہ گفتگو تھی ۔ اس کے بعد کورٹ نے سماعت مکمل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK