Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’امریکہ ہندوستان سے اپنی شرائط تسلیم کروانا چاہتا ہے‘‘

Updated: August 02, 2025, 11:46 AM IST | Agency | New Delhi

رگھورام راجن نے کہا: ہندوستان کو کاروں پر ٹیرف کو کافی حد تک کم کرنا چاہیے اور ڈیری اور زرعی پیداوار کے مفادات کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔

Raghuram Rajan. Picture: INN
رگھورام راجن۔ تصویر: آئی این این

ہندوستان سے آنے والی اشیا پر۲۵؍ فیصد ٹیرف لگانے کے امریکی فیصلے کو  ہندوستانی معیشت کو بری طرح  متاثر کرنے کا قدم سمجھا جانا چا ہئے۔ یہ بات شکاگو بوتھ اسکول آف بزنس کے فائنانس پروفیسر اور ریزرو بینک آف انڈیا  کے سابق گورنر رگھورام راجن نے  ایک ویڈیو انٹرویو میں کہی ہے۔
 آر بی آئی کے سابق گورنر راجن نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ ہندوستان اس کی شرائط کو تسلیم کر لے، اس لیے جرمانے جیسے یہ ٹیرف لگائے گئے ہیں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ ہندوستان  کو کاروں پر ٹیرف کو کافی حد تک کم کرنا چاہیے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ عالمی معاہدوں پر فیصلے کرتے وقت  ڈیری اور زرعی پیداوار کے مفادات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے حکومت کو ’قواعد کی غیر یقینی صورتحال’ اور’ٹیکس سے متعلق مسائل‘ جیسے مسائل پر قابو پانا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے غیر ملکی سرمایہ کار ہندوستان آنے سے کتراتے ہیں اور سرمایہ کاری کم کرتے ہیں۔ 
 امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے اور ٹیرف میں اضافہ عالمی تجارت اور امریکی معیشت کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟ اس سوال پر  راجن نے کہا کہ ہر ملک امریکہ سے اپنے لیے مختلف پیکیج طے کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک ہی پروڈکٹ کے لیے کچھ ممالک زیادہ ٹیرف وصول کر رہے ہیں اور کچھ کم۔ ایسی صورتحال میں سپلائی چین ان ممالک کی طرف منتقل ہو رہی ہے جہاں ٹیرف کم ہے، چاہے وہاں پیداوار اتنی مؤثر نہ ہو۔ مثال کے طور پر، امریکہ نے چین پر بھاری محصولات عائد کیے ہیں۔ اس لیے چین سامان میکسیکو بھیجنے کی کوشش کرے گا اور پھر وہاں سے امریکہ بھیجے گا تاکہ محصولات سے بچ سکے۔ اسے روکنے کے لیے امریکہ کو مزید تحقیقات کرنا ہوں گی۔
 رگھو رام راجن نے کہاکہ امریکی صارفین کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ اب انہیں کئی مصنوعات زیادہ قیمتوں پر ملیں گی۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ محصولات کا بوجھ غیر ملکی کمپنیوں پر پڑے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا اثر تینوں یعنی پروڈیوسرس، درآمد کنندگان اور صارفین پر پڑے گا۔ کس پر کتنا اثر پڑے گا اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ اس صنعت میں کتنی مقابلہ آرائی  ہے۔اس وقت امریکہ میں کچھ چیزوں کی قیمتیں بڑھنا شروع ہو گئی ہیں۔ قیمتوں میں اضافے کا مطلب ہے کہ صارفین کا بجٹ کم ہوگا اور ان کی قوت خریداری بھی کم ہوگی۔ 
  کیا ہندوستان اس تجارتی رکاوٹ سے نمٹنے کے لیے درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے؟ اس سوال پر آربی آئی کے سابق گورنر نے کہاکہ  ہندوستان اور امریکہ کے درمیان جاری ٹیرف مذاکرات نے صرف ایک وسیع ارادے کا انکشاف کیا ہے۔ یعنی  ہندوستان کو کس قسم کے ٹیرف ڈھانچے کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اصل تصویر ان تفصیلات میں ہے جن پر ابھی بات چیت ہونا باقی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ نے ادویات کے معاملے میں الگ سے بات چیت شروع کر دی تو اس شعبے کے لیے کیا قوانین بنائے جائیں گے؟ اسی طرح غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) اور نان ٹیرف رکاوٹوں پر ہندوستان کس قسم کے معاہدے کرتا ہے یہ بھی اہم ہوگا۔ہندوستان کو کن سیکٹرس میں ٹیرف کم کرنا چاہئے اور کیا کار سیکٹر ان میں سب سے اہم ہے؟ راجن نے کہاکہ  ہر ملک کاروں کو اپنا فخر سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ صنعت مضبوط ہو۔ ایسے میں کاروں پر ٹیکس (ٹیرف) کو کم کرنا ہندوستان کے لیےبہتر قدم ہوسکتا ہے۔ اگر ہندوستان کاروں پر ٹیرف کم کرتا ہے اور اپنی صنعت کو مزید مسابقت کا سامنا کرنے دیتا ہے تو اس شعبے میں مزید بہتری آسکتی ہے۔ 

رگھورام راجن نے ہندوستان کو کیا مشورہ دیا ہے؟
رگھورام راجن نے کہا کہ ہندوستان کو اپنے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور کاروبار کرنے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مسلسل کام کرنا چاہیے۔ اگر ہندوستان یہ یقین دلاتا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں(ایف ڈی آئی ) اور ہندوستانی سرمایہ کاروں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گا تو یہ ایک بڑی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔ جنوبی ہند کی کچھ ریاستوں نے پہلے ہی اس سمت میں سرگرم اقدام اٹھائے ہیں اور کافی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے۔ سرمایہ کاری خواہ مینوفیکچرنگ میں ہو یا خدمات میں، یہ ہندوستان کیلئے فائدہ مند ہے۔ آج، جب دنیا بھر کی کمپنیاں اپنی سپلائی چینز پر نظر ثانی کر رہی ہیں، یہ ہندوستان کیلئےایک واضح پیغام دینے کا موقع ہے کہ ہم سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ ابتدائی طور پر، سرمایہ کار صرف امریکی مارکیٹ کو ذہن میں رکھ کر آ سکتے ہیں، لیکن آہستہ آہستہ وہ عالمی مارکیٹ کے لیے ہندوستان سے بھی پیداوار کر سکتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK