Inquilab Logo

امریکی ماہرین کا مہاراشٹر میں شدید خشک سالی کا انتباہ

Updated: March 13, 2023, 11:16 AM IST | Mumbai

بحرالکاہل میں’ ایل نینو‘ کے اثر سے ہندوستان میںمانسون کے متاثر ہونے کا ا مکان ، کم بارش سے مہاراشٹر کے وہ خطے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیںجہاںپہلے سے ہی پانی کی قلت کے مسائل ہیں،نائب وزیر اعلیٰ فرنویس نے خشک سالی سے نپٹنے ا ور پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کیلئے جل یکت شیوار یوجنا کا دوسرا مرحلہ جلد شروع کرنے کا اعلان کیا

Vidarbha and Marathwada regions face more drought problems. (File Photo)
ودربھ اور مراٹھواڑہ خطوں میںخشک سالی کے زیادہ مسائل سامنے آتے ہیں۔(فائل فوٹو)

مہاراشٹر میں خشک سالی کا بحران دستک دے رہا ہے۔مہاراشٹر کے کسان جو کہ بے موسم بارش سے پریشان تھے، اب قحط کی وجہ سے  ان کےمشکلات کا شکار ہونے  کا اندیشہ ہے۔ امریکہ کے ماہرین موسمیات  نے اس تعلق سے متنبہ بھی کیا ہے۔ یہ سب’ ایل نینو‘ کے اثر کی وجہ سے ہونے جا رہا ہے۔مانسون ایل نینو سے متاثر ہوگا۔ اس وجہ سے خشک سالی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ دعویٰ ایک امریکی موسمیاتی ادارے ’نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن‘ نے کیا ہے۔ اس سال شدید گرمی ہوگی اور اس کے بعد خشک سالی کا بحران شدید ہوگا۔مہاراشٹر میں اس بار خشک سالی یا قحط کی سب سے بڑی وجہ ایل نینو اثر کو قرار دیا جا رہا ہے۔ فی الحال امریکی ماہرین موسمیات کی اس پیشگوئی کی ہندوستانی محکمہ موسمیات کی طرف سے تردید نہیں کی گئی اور نہ ہی اسے قبول کیا گیا ہے۔
جون سے دسمبر تک ایل نینو کا۵۵؍ سے۶۰؍ فیصد اثر
 امریکی ماہرین موسمیات کے مطابق جون سے دسمبر کے درمیان ایل نینو کے۵۵؍ سے ۶۰؍فیصد اثرات کا امکان ہے۔ اس کی وجہ سے بحر ہند کے درجہ حرارت میں تبدیلی آئے گی جس سے آنے والے مانسون پر اثر پڑے گا۔ جنوری اور فروری  اعداد و شمار کی بنیاد پر امریکی ماہرین موسمیات نے ایل نینو کے اثرات کے حوالے سے یہ اندازہ لگایا ہے۔ ہندوستانی ماہرین موسمیات اس بارے میں قطعی رائے دینے کیلئے اپریل تک  ا نتظار کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
ایل نینو کی بات کیوں ہو رہی ہے؟
 شدید گرمی کی وجہ سے جنوبی امریکہ کے مغربی ساحلی حصوں میں پانی گرم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے سمندر کے اندرونی حصوں میں درجہ حرارت بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس  کے نتیجے میں بحرالکاہل میں کم دباؤ کی پٹی بنتی ہے جو بحر ہند کی مانسون   ہواؤں کا رخ بدلنے کا سبب بنتی ہے۔ بحر ہند کی یہ نم ہوائیں کم دباؤ کی وجہ سے جنوبی امریکہ کی طرف بڑھنے لگتی ہیں۔ اس کی وجہ سےہندوستان میں مانسون  کے دوران کم بارش ہوتی  ہے۔ مختصراً یہ کہ ایل نینوکی وجہ سے ہندوستان کا مانسون امریکہ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ سے جنوبی اور وسطی امریکہ میںمعمول سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔ ایل نینو کا اثر ہر تین سے سات سال بعد ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف ہندوستان میں  بارش میں کمی آتی ہے بلکہ  مانسون کے  بعد کے موسم میں گرمی بھی برقرار رہتی ہے۔
مہاراشٹر کے تعلق سے کیا اندیشہ ہے؟
 مہاراشٹرکے تعلق سے امریکی ماہرین نےاندیشہ ظاہر کیا ہےکہ ان بحری عوامل کی وجہ سے اگر ہندوستان میںمانسون  معمول  کے مطابق نہیںرہے گا تومہاراشٹر کے وہ خطے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیںجہاںپہلے سے ہی پانی کی قلت کے مسائل ہیں مثلاً ودربھ اورمراٹھواڑہ جیسے خطے جہاں تاخیر سے بارش اور بے موسم بارش کی وجہ سےزیادہ مسائل ہوتے ہیںاور فصلوں کا کافی نقصان ہوتا ہے۔دوسری جانب لاتور خطے میںہر ۸؍ سے ۹؍ سال بعدخشک سالی کی صورتحال رہتی ہےجس کی وجہ سے خطے میں پانی کی قلت ہوجاتی ہے اورزرعی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔لاتور کے لوگوں کیلئے قحط ایک سنگین مسئلہ ہے کیونکہ یہاں۶۰؍فیصدلوگ زراعت پر ہی منحصر ہیں۔
جل یکت شیوار یوجنا کا دوسرا مرحلہ جلد شروع ہوگا : فرنویس
 مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ  دیویندر فرنویس نے کہا  ہے کہ ریاست میں خشک سالی کے ممکنہ بحران سے نمٹنے کی کوششیں جاری ہیں۔واضح رہے کہ اس سے قبل۲۰۰۲ء ، ۲۰۰۴ء  اور ۲۰۰۹ء   میں ایل نینو کی وجہ سے ہندوستان میں خشک سالی کا بحران پیدا ہوا تھا۔ نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے گزشتہ دنوں اسمبلی میں یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر خشک سالی کا امکان ہے تو اس سے نمٹنے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں اور چیف سیکریٹریوں کو اس کیلئے پلان تیار کرنےکی ہدایت دی گئی ہے۔ اس  کے علاوہ فرنویس نے اتوار کو کہا کہ ریاست میں پانی کے ذخیروںکو محفوظ بنانے اور انہیںوسیع کرنے کے منصوبے ’جل یکت شیوار یوجنا ‘کا دوسرا مرحلہ جلد شروع کیاجائے گا ۔
 `جل یکت شیوار ابھیان۲۰۱۴ء میں شروع کیا گیا تھا جب دیویندر فرنویس وزیر اعلیٰ تھے ۔ندیوں کو گہرا اور چوڑا کرنا، پانی روکنے کیلئے سیمنٹ اور مٹی کے  باندھ بنا  اور نالوںکو بحال کرنا اور کھیتوں میں تالاب  بنانا اس منصوبہ کا حصہ تھا ۔ اس یوجنا کا مقصد ہر سال۵؍ ہزار دیہاتوں  میں پانی کی کمی کو دور کرکے ریاست کو خشک سالی سے آزاد کرنا تھا۔فرنویس نے کہا کہ’’ پانی بچانا ہی مہاراشٹر کیلئے واحد متبادل ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ مہاراشٹر کے۵۰؍ فیصد حصے میں   ہی بارش ہوتی ہے۔ ہمارے پاس پانی کے تحفظ  کےعلاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ہم جلد ہی جل یکت شیوار کا دوسرا مرحلہ شروع کریں گے۔‘‘ انہوں نے مزیدکہا ’’ہم نے اس پروجیکٹ کے ذریعے۲۰؍ ہزار دیہاتوں میں پانی کو محفوظ کرنے کا انتظام کیا تھا۔ تقریباً۳۷؍ لاکھ ہیکٹر اراضی کو کاشتکاری کے قابل بنایا گیاجس سے کسانوں کو ایک سال میں دو فصلیں کاشت کرنے میں مدد ملی۔‘‘فرنویس نےکہا کہ یہ پروجیکٹ اس سال مزید  اہم  ہوگیا ہے کیونکہ کچھ موسمی ماڈل ’ایل نینو‘ اثر کی پیشین گوئی کر رہے ہیں جس  کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر پانی کے تحفظ کی ضرورت  سامنے آ سکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK