ڈی ایم کے ایم پی ڈی راجا نے وقف بل پیش کرتے وقت مرکزی وزیر کرن رجیجو کی دروغ گوئیوں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ مودی حکومت کو سردار پٹیل کے حوالے سے آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔
EPAPER
Updated: April 14, 2025, 10:05 AM IST | New Delhi
ڈی ایم کے ایم پی ڈی راجا نے وقف بل پیش کرتے وقت مرکزی وزیر کرن رجیجو کی دروغ گوئیوں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ مودی حکومت کو سردار پٹیل کے حوالے سے آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔
وزیر محترم (کرن رجیجو) کے ’’جرأت مندانہ ‘‘ خطاب کو میں نے پوری توجہ سے سنا اور حیران ہوا کہ اُن میں یہ جرأت کہاں سےآتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں بے بنیاد اورمن گھڑت کہانیاں پیش کریں۔ میں وزیرمحترم کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ کل اپنی تقریر کا متن پڑھیں اوراسے جے پی سی کی رپورٹ سے ملائیں۔ اگر انہوں نے (جےپی سی رپورٹ کے حوالے سے )جو کہا وہ درست نکلا تو میں اس ایوان سے استعفیٰ دے دوں گا۔
آپ خود یاد کیجئے، آپ نے جب اس بل کوپیش کیا توبتایا تھا کہ اسے پیش کرنے کی وجہ کیا ہے۔ آپ نےاس بل کے پیش کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے جو ایک واضح مثال دی وہ یہ ہے کہ تمل ناڈو کےترچاپلی ضلع کا ایک پورا گاؤں جو ہزاروں ایکڑ پر مشتمل ہے کو وقف جائیداد قرار دے دیاگیا۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) تمل ناڈو گئی، وہاں ضلعی کلکٹر اور ریونیو ڈپارٹمنٹ کے سیکریٹری اس کے سامنے پیش ہوئے، وقف بورڈ کے سی ای او نے بھی ثبوت پیش کئے۔ جےپی سی کے چیئرمین وہاں موجود تھے جو اِس وقت ایوان میں بھی ہیں، تینوں افسران نے ان کے سامنے آپ کی من گھڑت کہانی کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا تھا۔ اس کے باوجود آپ اب نئی من گھڑت کہانی لے کرآگئے ہیں کہ پارلیمنٹ کی زمین بھی وقف بورڈکو دی جاسکتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس بل کے ذریعے اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ دینے کا دعویٰ تو کیا جا رہا ہے لیکن جو پارٹی اس کا دعویٰ کررہی ہے اس کے پاس مسلم سماج کا ایک رکن پارلیمنٹ بھی نہیں ہے جو اس بل کو پیش کرسکے، اس کی حمایت کرے یا اس کے مقاصدکی تائید کرے۔ وہ ایک بھی(مسلم) رکن پارلیمان پیش نہیں کر سکتے اور ہمیں سیکولرزم کے تحفظ کا درس دے رہے ہیں۔
آج ہندوستانی پارلیمنٹ کیلئے اہم دن ہے جہاں ہم اپنی تقدیر کا فیصلہ کریں گے کہ یہ سیکولر ملک اپنے اُن آباؤ اجداد کے دکھائے ہوئے راستے پر چلے گا جنہوں نے آزادی کی لڑائی لڑی اور ہمارے لئے آئین بنایا یا پھر فرقہ پرست طاقتوں کی پیروی کرکے ان کے تیار کردہ منفی راستے پر گامزن ہوگا؟
میں اپنی تقریر کا آغاز تمل ناڈو اسمبلی کی قرارداد سے کرنا چاہتا ہوں جو خود تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن نے پیش کی۔ متفقہ طور پر منظور ہونے والی اس قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ’’پارلیمنٹ میں پیش کردہ وقف بل اقلیتی حقوق اور مذہبی آزادی کے منافی نیز آئین کے خلاف ہے۔ یہ عدالتی فیصلوں سے متصادم، غیر ضروری اور مبہم ہے۔ اگر یہ منظور ہوا تو وقف اداروں کو نقصان ہوگا اور مسلم طبقہ متاثر ہوگا۔ اس لئے (تمل ناڈو کی)یہ اسمبلی مرکزی حکومت سے اس ترمیمی بل کو واپس لینے کی اپیل کرتی ہے۔ ‘‘ کیا یہ سوال درست نہیں کہ پورے ملک کی سیاسی مرضی اور رائےکااظہار اس ایوان میں ہونا چاہئے۔
تمل ناڈو کی سیاسی رائے جو وہاں اسمبلی میں ظاہر ہوئی نہ صرف ( پارلیمنٹ میں پیش کردہ وقف بل سے)متضاد ہے بلکہ مکمل طور پر اس کے خلاف بھی ہے؟ اگر آپ اس فرق کو قبول نہیں کرتے تو اس ملک کے اتحاد وسالمیت پر سوال اٹھے گا۔ اس بات کو نوٹ کرلیں۔
میں ایوان کو۱۹۴۹ء میں لے جانا چاہتا ہوں، جب آزادی کے فوراً بعد آئین بنایا جا رہا تھا۔ آپ کو خوشی ہوگی کہ آپ کے پسندیدہ لیڈر، اِس ملک کے مردآہن کہلانے والے سردار ولبھ بھائی پٹیل جن پر آپ کی سرکار کا جھوٹی بنیادوں پر دعویٰ ہے، اُس وقت قانون ساز اسمبلی میں اقلیتوں کیلئے مشاورتی کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ میں اپنے نظریات ان ہی کے الفاظ میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ صدر جمہوریہ ہند راجندر پرساد، پنڈت جواہر لال نہرو جو بعد میں وزیراعظم بنے، ڈاکٹر امبیڈکر اورڈاکٹر منشی جیسے لوگ اس کمیٹی کے رکن تھے۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کی قیادت میں اس کمیٹی نےفیصلہ کیا اور رپورٹ تیار کرکے۲۵؍ مئی۱۹۴۹ءکو آئین ساز اسمبلی میں پیش کی۔
سردار پٹیل خودکہتے ہیں اور میں ان ہی کے الفاظ بیان کر رہا ہوں کہ ’’۵؍ افراد کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس میں ہمارے معزز صدر، پنڈت جواہر لال نہرو، ڈاکٹر منشی، ڈاکٹر امبیڈکر اور میں خود شامل تھا۔ اس کمیٹی نے فروری میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ ‘‘
پٹیل نےقانون ساز اسمبلی میں اپنی جو رپورٹ پیش کی اس میں کہا کہ’’ اگر وہ (یعنی مسلمان) واقعی ایمانداری سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس ملک کے بدلتے حالات میں، یہ سب کے مفاد میں ہے کہ ایک سیکولر ریاست کی حقیقی اور مستحکم بنیادیں رکھی جائیں، تو اقلیتوں کیلئے اس سے بہتر کوئی امر نہیں کہ وہ اکثریت کی حسنِ نیت اور انصاف کے احساس پر بھروسہ کریں اور ان پر اعتماد کریں۔ ‘‘
یہ پہلا حصہ ہے، دوسرا حصہ اور بھی زیادہ اہم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اسی طرح، ہم جو اکثریت میں ہیں، ان کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ ہم سوچیں کہ اقلیتیں کیا محسوس کرتی ہیں، ان کے ساتھ کیسا برتاؤ ہورہاہے اور اگر ہم ان کی جگہ ہوتے اور اس طرح کا سلوک ہمارے ساتھ ہوتا تو ہم کیا محسوس کرتے۔ البتہ طویل مدت میں یہ ہم سب کے مفاد میں ہوگا کہ ہم اکثریت اور اقلیت (کے فرق) کو بھول جائیں اور یہ سمجھیں کہ بطور ہندوستانی ہم صرف ایک سماج ہیں۔ ان مشاہدات کے ساتھ میں تجویز کرتا ہوں کہ مشاورتی کمیٹی کی رپورٹ پر غور کیا جائے اوراسے قبول کیا جائے۔ ‘‘
یہ سردار پٹیل کی آئین ساز اسمبلی میں آواز تھی۔ ہم سردار پٹیل کی میراث کو آئینی طور پر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جو لوگ آج اس(وقف ترمیمی) بل کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ اس میراث کی حمایت کر رہے ہیں لیکن جو لوگ سردار پٹیل کا مجسمہ بناتے ہیں مگر ان کے نظریات کو مٹانا چاہتے ہیں، وہ اس بل کی حمایت کر رہے ہیں۔ بس یہی مسئلہ ہے۔
( اے راجہ نے آدھا گھنٹہ طویل اور مدلل تقریر کی۔ ابتدائی ۹؍ منٹوں میں انہوں نے جو کچھ کہا اسے یہاں پیش کیاگیا ہے۔ بقیہ تقریر کی تلخیص کل ملاحظہ فرمائیں۔ )