Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ کے حالات پر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے اسرائیل کولتاڑا

Updated: August 14, 2025, 2:04 PM IST | Agency | Sydney/Wellington

انتھونی البانیز نے کہا کہ’’اسرائیلی اقدامات ایسے نہیں کہ انکا دفاع کیا جائے‘‘ کرسٹوفر لکسن نے کہا کہ ’’نیتن یاہو راستہ بھٹک گئے ہیں۔‘‘

Hungry civilians carry containers to receive food at a food distribution center in Gaza. Photo: INN
غزہ میں غذائی تقسیم کے ایک مرکز پر بھوکے شہری برتن اٹھائے کھانا حاصل کررہے ہیں۔ تصویر: آئی این این

غزہ پر اسرائیلی مظالم کی انتہا دیکھ کر عالمی برادری میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے سربراہان نے اس معاملے میں اسرائیل کو لتاڑا ہے اور اہل غزہ کی دگرگوں حالت پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ خیال رہے کہ دونوں ہی ممالک یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ ریاست فلسطین کو ستمبر میں تسلیم کرلیں گے۔  آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے بدھ کے روزجاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ غزہ  پٹی میں لوگ بھوک اور موت کا سامنا کر رہے ہیں اور یہ کسی بھی صورت  قابلِ قبول نہیں ہے۔ جبکہ نیوزی لینڈ کے وزیراعظم لکسن نے بھی اسرائیل پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ نیتن یاہو راستہ بھٹک گئے ہیں۔
آسٹریلوی وزیراعظم نے کہا کہ یہ وحشت و بربریت ہرگز قبول نہیں
 اے بی سی  کو دئیے گئے  انٹرویو میں انتھونی البانیز نے غزہ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ اسرائیلی اقدامات اس قابل نہیں ہیں کہ ان کا ’دفاع‘ کیا جا سکے۔ انہوں نے  کہا ہے کہ ’’مارچ میں اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ وہ امداد کی ناکہ بندی کرے گا اور آج  ہم اس کے نتائج دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت غزہ ایک انسانی المیے سے گزر رہا  ہے۔‘‘ اس سوال کے جواب میں کہ “کیا اسرائیل کا `قصداًپیدا کردہ `قحط  `جنگی جرم ہے؟”  البانیز نے کہا ہے کہ ’’یہ صورتحال کسی بھی صورت میں بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ہے کہ’’ذرائع ابلاغ کے غزہ میں داخلے پر پابندی کے باوجود انسان ہر شام  اپنی ٹیلی ویژن اسکرینوں پر وہاں کے حالات دیکھ رہے ہیں۔ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ غزہ میں انسان نہ صرف شدید مصائب، بھوک اور جانی نقصان کا سامنا کر رہے ہیں بلکہ خوراک اور پانی تک رسائی کی کوشش میں  قتل بھی کئے جا رہے ہیں۔ یہ دورِ جاہلیت نہیں۲۰۲۵ءہے اور اس دور میں یہ وحشت و بربریت  بالکل بھی قابلِ  قبول  نہیں ہے۔‘‘البانیز نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی اقدامات کا نتیجہ  معصوم جانوں کے نقصان، مفلسی  اور تشدد کی صورت میں نکل  رہا  ہے۔ اسی وجہ سے یہ اقدامات  ’’قطعی طور پر  ناقابل قبول‘‘ ہے۔آسڑیلوی وزیر اعظم نے پیر کے روز اعلان کیا تھا کہ آسٹریلیا ستمبر میں متوقع  اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس  میں  فلسطین کو تسلیم کرے گا۔
نیوزی لینڈ کے وزیراعظم کرسٹوفر لَکسن  نے کیا کہا؟
 نیوزی لینڈ کے وزیراعظم کرسٹوفر لَکسن نے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو پر سخت  تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیوزی لینڈ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کر رہا ہے۔غزہ سٹی پر حالیہ حملے کو مکمل طور پر ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے کرسٹوفر لکسن نے کہا کہ لگتا ہے نیتن یاہو راستہ بھٹک گئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں انسانی امداد کی شدید کمی ہے، فلسطینیوں کی زبردستی بےدخلی اور الحاق شرمناک ہے۔ لکسن نے یہ بھی کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ زیرِ غور ہے۔ خیال رہے کہ  آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ اور فرانس پہلے ہی ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا کہہ چکے ہیں۔
 واضح رہے کہ دو ملین آبادی والے غزہ پر۲۲؍ ماہ سے مسّلط کردہ  جنگ کی وجہ  سے اسرائیل کو بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے ۔ اسرائیل نے دو ماہ سے غزّہ  پر خوراک کی ناکہ بندی کر رکھی ہے وجہ سے انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے علاقے میں بڑے  پیمانے کے اور انسانی ساختہ  قحط کے خطرے پر تشویش ظاہر کی ہے ۔اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے مطابق، جنوری۲۰۲۵ء سے اب تک غذائی قلت کی وجہ سے۱۴۸؍ فلسطینیوں کی موت واقع  ہو چکی ہے ۔ دوسری طرف عالمی خوراک پروگرام  ` ڈبلیو ایف پی `نے اگست میں جاری کردہ بیان میں  کہا  ہےکہ غزہ میں بھوک اور غذائی قلت جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک کی  بلند ترین سطح پر پہنچ چُکی ہے۔ ڈبلیو ایف پی نے کہا ہے کہ ’’آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ کئی دنوں سے خوراک  سے محروم ہے۔ ۳؍لاکھ  بچوں کو  شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ ضرورت کے مطابق امدادی ٹرکوں کو علاقے میں داخلے کی اجازت نہ دیئے جانے کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK