• Sun, 02 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ضمانت پر سماعت ، عمر خالد اور گلفشاں فاطمہ کے وکلاء نے دلائل پیش کئے

Updated: November 01, 2025, 11:49 AM IST | New Delhi

عمر خالد کے وکیل نے کہاکہ ان کا موکل فساد کے وقت شہر میں موجود ہی نہیں تھا ، سپریم کورٹ میں دلائل دینے کا سلسلہ ۳؍ نومبر کو بھی جاری رہے گا

Sharjeel Imam and Umar Khalid still waiting for bail after 5 years
شرجیل امام اور عمر خالد ۵؍ سال بعد بھی ضمانت ملنے کے منتظر ہیں

دہلی فسادات کے کیس میں ملزم شرجیل امام، عمر خالد، میران حیدر سمیت کئی لوگ ۵؍ سال سے جیل میں بند ہیں۔ ان کی ضمانت عرضی پر  جمعہ کو سپریم کورٹ میں حتمی  سماعت شروع  ہوئی جس کی کارروائی مکمل نہ ہونے اور دلائل پیش کرنے کا سلسلہ بھی نامکمل رہنے کی وجہ سے کارروائی ۳؍ نومبرکو بھی جاری رہے گی۔
 اس سے قبل گزشتہ کئی تاریخوں پر متعدد اسباب کے تحت ضمانت کی درخواستوں پرسپریم کورٹ کی بنچ بھی سماعت نہیں کرسکی تھی۔دہلی پولیس کے وکلاء نے بھی متعدد بار جواب داخل کرنے کیلئے مہلت طلب کی تھی۔ گزشتہ پیرکو دہلی پولیس نے جب پھر دو ہفتوں کی مہلت طلب کی تو جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریہ کی بنچ نے مزید مہلت دینے سے انکار کرتے ہوئے آج (جمعہ ) کا وقت دیا تھا۔ آج جب صبح کے وقت عمر خالد اور دیگر کی عرضیوں پر سماعت شروع ہوئی تو جسٹس اروند کمار نے دہلی پولیس کے وکیل سے پوچھا کہ بار بار مہلت دیئے جانے کے باوجود آپ نے ابھی تک جواب داخل کیوں نہیں کیا ہے؟ دہلی پولیس کے وکیل اس کا کوئی جواب نہیں دے سکے۔ جسٹس اروند کمار نے دوبارہ پوچھا کہ آپ کا جواب کہاں ہے؟بنچ نے اس موقع پر عمر خالد کے وکیل اور بار کونسل کے سینئر رکن کپل سبل سے بھی پوچھا کہ آپ ایسی صورتحال سے کیسے نپٹتے ہیں جب ججوں تک کو جواب کی کاپی نہیں دی جاتی؟ کپل سبل اور ابھشیک منوسنگھوی نے کہا کہ ہم نے بھی اخبارات میں پڑھا ہے کہ دہلی پولیس کے وکیل نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب داخل کردیا ہے لیکن یہاں ندارد ہے۔
  اس کے بعد سپریم کورٹ نے دہلی پولیس کو مزید مہلت نہ دیتے ہوئے بحث شروع کروادی۔ کچھ دیر کی بحث کے بعدبنچ نے سماعت دوپہر بعد کیلئے موخر کردی۔ لنچ کے وقفہ کے بعد جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو بنچ نے پھر سے سخت ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہلی پولیس کو اب مزید مہلت نہیں دی جاسکتی ۔اس سےقبل جمعہ کو ہونے والی سماعت میں گلفشاں فاطمہ کی طرف سے ابھشیک منو سنگھوی نے  دلیل پیش کی۔  انہوں نے کہا کہ انکی موکل گلفشاں فاطمہ کو جیل میں بند ہوئے ۵؍سال ۵؍ ماہ ہو چکے ہیں۔     

 منو سنگھوی نے کہا کہ انکی موکل گلفشاں فاطمہ کو جیل میں بند ہوئے ۵؍سال ۵؍ ماہ ہو چکے ہیں۔  اس دوران انہیں ضمانت تو نہیں ملی لیکن ان کے خلاف کئی ضمنی فرد جرم بھی داخل کئے جاچکے ہیں۔ جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریہ کی بنچ  کے سامنے منو سنگھوی نے کہا کہ یہ بہت طویل عرصہ ہے۔ اس میں کئی مجرمین کی سزا مکمل ہو جاتی ہے لیکن میری موکل کے خلاف اب تک مقدمہ بھی شروع نہیں ہوا ہے۔ ایسے میں انہیں ضمانت ملنی چاہئے۔ یہ بھی غور کرنے والی بات ہے کہ اس معاملے میں وہ تنہا خاتون ہیں جنہیںضمانت نہیں ملی ہے۔ باقی تمام ماخوذ خواتین کو ضمانت مل گئی ہے۔ بنچ نے بھی اس دلیل سے اتفاق کیا کہ ان کے پاس ضمانت دینے  کے بہت مضبوط  دلائل ہیں  اور ہمیں اس پر بہت سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔  سنگھوی  نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے پر غور کرنے میں بھی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔  بنچ کو اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ وہ ایک خاتون ہیں۔ 
سماعت کے دوران عمر خالد کی جانب سے پیش ہوئےسینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے یہ دعویٰ کیا کہ فسادات کے وقت ان کے موکل دہلی میں موجود ہی نہیں تھے۔  انہوں نے مزید کہا کہ یہ بعد میں طے کیا جانا ہے کہ کیا اس طرح کے ضمنی فرد جرم کے ذریعہ جانچ جاری رکھی جا سکتی ہے۔ سبل نے بتایا کہ اس وقت  الزامات پر بحث جاری ہے ، الزامات تک طے نہیں ہوئے ہیں بلکہ دہلی فسادات کے ۷۰۰؍ سے زائد معاملات درج کئے گئے لیکن عمر خالد کو صرف ایک معاملے میں ملزم بنایا گیا اور اس میں بھی الزامات تک طے نہیں کئے جاسکے۔ یہ ایک طرح سے قانون کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ شرجیل امام کی طرف سے سینئر وکیل سدھارتھ دَوے نےآخر میں دلائل شروع کئے۔ انہوں نے کہا کہ فریق استغاثہ کو جانچ پوری کرنے میں ۳؍ سال لگ گئےجس کی وجہ سے ۳؍سال تک مقدمہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ اس کے بعد کورٹ نے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK