• Thu, 20 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بالا صاحب تھورات کا نیا دائو، پنجے کے نشان کے بغیر اپنے امیدوار اتاریں گے

Updated: November 20, 2025, 2:00 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

سینئر کانگریس لیڈر نے ’سنگم نیر سیوا سمیتی‘ نامی اتحاد قائم کیا جسکی کمان ستیہ جیت تانبے کو سونپ دی، سوال یہ ہے کہ ایسا انہوں نے کانگریس کی رضامندی سے کیا یا اس کے خلاف؟

Balasaheb Thorat.Photo:INN
بالا صاحب تھورات۔ تصویر:ائی این این
احمد نگر:( آئی این این)سابق ریاستی وزیر بالا صاحب تھورات مہاراشٹر میں کانگریس کے سب سے سینئر لیڈروں میں سے ایک ہیں جو احمد نگر ضلع کے سنگم نیر سے مسلسل ۸؍ بار رکن اسمبلی رہ چکے ہیں لیکن گزشتہ (۲۰۲۴ء) اسمبلی الیکشن میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب جبکہ میونسپل الیکشن کا اعلان ہو چکا ہے تو بالا صاحب تھورات کی ساکھ بھی دائو پر لگی ہے۔ اگر انہوں نے سنگم نیر میونسپل کونسل میں اپنی کامیابی کے جھنڈے نہیں گاڑے تو ان کا اور کانگریس کا دبدبہ علاقے سے ختم ہو جائے گا۔ لیکن تھورات نے اس بار کامیابی کیلئے نئی حکمت عملی تیار کی ہے۔انہوں نے پارٹی کا نشان یعنی ہاتھ کا پنجہ ہی ہٹا دیا ہے۔ جی ہاں ان کے سارے امیدوار کسی اور نشان (جو انہیں الیکشن کمیشن فراہم کرے گا) پر الیکشن لڑیں گے۔ اس کی وجہ سے جہاں سیاسی حلقوںمیں چہ میگوئیاں ہیں وہیںسنگم نیر کے کٹر کانگریسی کارکنان تذبذب میں ہیں۔ 
دراصل بالا صاحب تھورات نے سنگم نیر میں میونسپل الیکشن کیلئے ایک نیا اتحاد ( یا پارٹی کہہ لیجئے ) قائم کیا ہے جس کا نام سنگم نیر سیوا سمیتی رکھا گیا ہے۔ اس کی کمان انہوں نے بھانجے ستیہ جیت تانبے کے ہاتھوں سونپی ہے جو کہ ایم ایل سی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہی ستیہ جیت تانبے ہے جنہوں نے ایم ایل سی بننے کیلئے کانگریس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ اس کی وجہ سے تھورات پر بھی الزام لگے تھے ۔ ناراض تھورات نے اسمبلی میں کانگریس کے گروپ لیڈر کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا تھا لیکن انہوں نے کانگریس کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔  اس لئے اب سنگم نیر سیوا سمیتی کے بینر تلے اپنے امیدواروں کو اتارنے کے ان کے منصوبے سے سبھی کی بھنویں تن گئی ہیں۔ حالانکہ اب تک پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے اس پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ 
کہا جا رہا ہے کہ بالا صاحب تھورات اب نوجوانوںکو آگے کرکے میونسپل کونسل پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ نئی قیادت علاقے کی ترقی اور سہولیت کیلئے کام کرے اور وہ خود صرف ان کی رہنمائی کریں لیکن اس کیلئے پارٹی کا نشان ہٹانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا وہ ناراضگی ظاہر کئے بغیر کانگریس سے دورہونا چاہتے ہیں یا پھر یہ ان کی کوئی حکمت عملی ہے؟ ایک خیال یہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ چونکہ ستیہ جیت تانبے  ناسک ٹیچرس حلقے سے بی جے پی کی مدد سے ایم ایل سی بنے ہیں اس لئے سنگم نیر میں اگر وہ کانگریس کے جھنڈے تلے ووٹ مانگتے ہیں تو شاید انہیں ووٹ نہ پائیں۔ اس لئے وہ اپنا انتخابی نشان تبدیل کرکے عوام تک پہنچنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں ہر طرح کے ووٹروں کا ساتھ ملے۔ 
یاد رہے کہ احمد نگر بنیادی طور پر کانگریس کے دبدبے والا ضلع تھا جہاں بالا صاحب تھورات اور رادھا کرشن وکھے پاٹل جیسے ۲؍ اہم کانگریسی لیڈر پارٹی کی مضبوطی کا باعث تھے لیکن ۲۰۱۹ء میں رادھا کرشن وکھے پاٹل بی جے پی میں شامل ہو گئے جس کی وجہ سے وہاں کانگریس کو جھٹکا لگا۔ یہ جھٹکا مزید کاری ثابت ہوا جب ۲۰۲۴ء کے اسمبلی انتخابات میں بالا صاحب تھورات کو شکست ہوئی۔ حالانکہ تھورات کو ریکارڈ یہ ہے کہ ۱۹۸۵ء میں جب انہیں کانگریس نے ٹکٹ نہیں دیا تھا تو انہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا تھا۔ الیکشن جیتنے کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ ’’ میں بنیادی طور پر کانگریسی نظریات کا حامل ہوں اس لئے کسی اور پارٹی میں نہیں جائوں گا۔ ‘‘ لہٰذا وہ دوبارہ کانگریس میں شامل ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے مزید ۷؍ الیکشن لڑے ۔ہر الیکشن ہاتھ کے پنجے کے نشان پر لڑا لیکن اس بار انہوں میونسپل کونسل الیکشن میں اپنے امیدواروں کو وہ پنجے کے بجائے کسی اور نشان پر میدان میں اتار رہے ہیں۔
اس تعلق سے انہوں نے میڈیا میں کوئی اعلان نہیں کیا تھا۔ نہ ہی ایسی کوئی اطلاع ہے کہ وہ پارٹی سے ناراض ہوں۔ چونکہ ان کے اقدام پر کانگریس نے بھی اب تک کوئی توجہ نہیں دی ہے اس لئے یہ بتانا مشکل ہے کہ ایسا انہوں نے پارٹی کی رضامندی سے کیا ہے یا پھر یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے۔ اگر ان کا اپنا فیصلہ ہے تو پارٹی کا کیا رد عمل ہوگا؟ فی الحال یہ ساری باتیں راز میں ہیں۔ البتہ تھورات کو اپنے اس فیصلے سے کامیابی کی امیدیں ہیں۔   

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK