۲۴؍ گھنٹے میں ۱۷؍ مریضوں کی موت ،ملک میں ڈینگو کے سبب ہونے والی اموات کی۲۰۰۰ء کے بعد اب تک کی سب سے بڑی تعداد۔
EPAPER
Updated: October 03, 2023, 12:01 PM IST | Agency | Dhaka
۲۴؍ گھنٹے میں ۱۷؍ مریضوں کی موت ،ملک میں ڈینگو کے سبب ہونے والی اموات کی۲۰۰۰ء کے بعد اب تک کی سب سے بڑی تعداد۔
بنگلہ دیش میں رواں برس کے آغاز سے لے کر اب تک ڈینگو بخار سے ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں ، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ ملک میں ڈینگو کے سبب ہونے والی اموات کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان میں سے۱۷؍ مریضوں کی موت گزشتہ ۲۴؍ گھنٹے میں ہوئی ہے۔واضح رہےکہ گزشتہ سال ڈینگو سےملک میں ۲۸۱؍ اموات ہوئی تھیں ۔خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ڈینگو ایک ایسی بیماری ہے جو گرم علاقوں میں تیزی سے پھیلتی ہے اور تیز بخار، سر درد، متلی، الٹی، پٹھوں میں درد کا سبب بنتی ہے، انتہائی سنگین شکل اختیار کرنے کی صورت میں یہ ڈینگو خون بہنے اور نتیجتاً موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ ڈینگو اور مچھروں سے پھیلنے والے دیگر وائرس مثلاً چکن گنیا، زرد بخار اور زیکا وائرس موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تیزی سے پھیل رہے ہیں ۔بنگلہ دیش کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ہیلتھ سروسیز کی جانب سے گزشتہ روز شائع ہونے والے اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ رواں برس اب تک ڈینگو کے ۲؍ لاکھ سے زائد معاملات کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں سے۱۰۰۶؍ افراد ہلاک ہوچکے ہیں ۔ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر بےنظیر احمد نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ رواں برس اب تک ہونے والی اموات کی تعداد۲۰۰۰ء کے بعد سے تمام گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق متوفیوں میں ۱۵؍ سال اور اس سے کم عمر کے۱۱۲؍ بچے اور شیر خوار بچے بھی شامل ہیں۔
سائنسدانوں نے رواں برس ڈینگو کے پھیلاؤ کی وجہ سالانہ مانسون سیزن کے دوران بےقاعدہ بارش اور گرم درجہ حرارت کو قرار دیا ہے جس نے مچھروں کی افزائش کیلئے سازگار حالات پیدا کیے۔
زیادہ ترمعاملات جولائی سے ستمبر کے دوران ریکارڈ کیے گئے، زیادہ تر بارش ان ہی مہینوں میں ہوئیں اور ساتھ ہی بعض اوقات سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ بھی ہوئی۔حالیہ برسوں کے دوران بنگلہ دیش کے اسپتالوں میں سردیوں کے مہینوں میں ڈینگو میں مبتلا مریضوں کو بھی داخل کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔مچھر دانیوں میں لیٹے سیکڑوں مریض اِس وقت ڈھاکہ کے بڑے اسپتالوں کے ڈینگو وارڈز میں زیرعلاج ہیں اور اہل خانہ پریشان نگاہوں کے ساتھ ان کی تیمار داری پر مامور ہیں۔