• Thu, 25 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

۱۹۴۷ء سے ۲۰۲۱ء کے درمیان ۱۳۲؍افراد نے طیارہ کے پہیوں میں چھپ کر سفر کیا

Updated: September 25, 2025, 11:55 AM IST | Inquilab News Network | New Delhi

اتوار کو۱۳؍ سالہ افغان لڑکے کے کابل سے نئی دہلی پہنچنے کے واقعہ نے ۱۹۹۶ء میں پنجاب کے دو بھائیوں کی یاد تازہ کردی جنہوں نے اسی طرح چھپ کر لندن کا سفر کیاتھا مگر ایک ہی پہنچ پایا.

A 13-year-old Afghan boy reached New Delhi from Kabul by sitting between the wheels. He has been sent back. Photo: INN
افغانستان کا ۱۳؍ سالہ نوجوان پہیوں کے بیچ میں بیٹھ کر کابل سے نئی دہلی تک پہنچا۔اسے واپس بھیج دیا گیاہے۔ تصویر: آئی این این

اتوار کوطیارہ کے لینڈنگ گیئر(وہ جگہ جہاں طیارے کے پہئے اندر جا کر بند ہوجاتےہیں) میں چھپ کر ایک۱۳؍سالہ افغان لڑکا  کابل سے نئی دہلی پہنچ گیا۔ اس واقعہ نے سب کو حیران کردیا ہے مگر یہ  اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں ہے،۱۹۴۷ء سے ۲۰۲۱ء کے درمیان  ۱۳۲؍ افراد طیارہ  میں  اس طرح چھپ کر سفر کرنے کی کوشش کرچکے ہیں۔ البتہ کچھ ہی خوش قسمت ہیں جو بحفاظت اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں  کامیاب ہوسکے۔ ہندوستان   کے شہری ۱۹۹۶ء کا وہ واقعہ نہیں بھول سکتے جب پنجاب کے ۲؍ نوجوانوں نے اسی طرح لندن جانے کی کوشش کی تھی۔  ان میں  سےایک بھائی کی جان بچی،  دوسرا پرواز کے ودران ۲؍ ہزار فٹ کی بلندی سے زمین پر گر گیاتھا۔ 
افغانستان کا ۱۳؍ سالہ لڑکا ایران جانا چاہتا تھا
 اندرا گاندھی ایئر پورٹ  پر اتوار کو جب کام ایئر لائن کی فلائٹ اتری تو جہاز کے عملے نے ایک لڑکے کو طیارے کے قریب چلتے ہوئے دیکھا۔انہوں نے فوری طور پر سیکوریٹی  حکام کو اطلاع دی جو اُسے تحقیقات کیلئےٹرمینل پر لے گئے۔ پوچھ تاچھ پر معلوم ہوا کہ لڑکے(جس کا نام قانونی بندشوں کی وجہ سے ظاہر نہیں کیا جاسکتا) کا تعلق افغانستان کے صوبے قندوز سے ہے۔  لڑکے کا کہنا تھا کہ وہ کابل ایئرپورٹ میں داخل ہوا اور کسی طرح جہاز کے مرکزی لینڈنگ کمپارٹمنٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ ایران جانا چاہتاتھا مگر نئی دہلی پہنچ گیا کیوں  کہ جس طیارہ کا انتخاب کیا وہ نئی دہلی کا تھا۔   ڈیڑھ گھنٹے  (۹۴؍ منٹ ) کے اس سفر میں وہ کرشماتی طورپر محفوظ رہاورنہ طیارہ  کے  بلندی پر  پہنچنے کے بعد جب  درجہ حرارت منفی ۵۰؍ ڈگری تک پہنچ جاتا ہے،کسی کا زندہ رہ پانا تقریباً ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال مذکورہ نوجوان کو اسی طیارہ سے  اتوار کی شام ہی واپس افغانستان بھیج دیا گیا۔ البتہ اس واقعہ نے ایسے کئی پرانےواقعات کو موضوع بحث بنا دیا ہے۔ 
ہندوستان کے سینی برادران کی لندن جانے کی کوشش
 ۱۹۹۶ءمیں  ہندوستان کے پردیپ سینی اور ان کے بھائی وِجے سینی نے برٹش ایئرویز کے طیارہ  میں چھپ کر  دہلی سے لندن جانے کی کوشش کی۔  ۲۳؍ سالہ پردیپ تو ۱۰؍گھنٹے کا یہ طویل سفر حیرت انگیز طور پر جھیل جانے میں کامیاب رہا مگر اس کا چھوٹا بھائی ۱۹؍سالہ وجے، ٹھنڈ کو برداشت نہ کرسکا اور ہائپو تھرمیا (جب جسم کا درجہ حرارت ۳۵؍ڈگری سینٹی گریڈ سے کم ہوجاتا ہے) کی وجہ سے ۲؍ہزارفٹ کی بلندی سے گر کرموت کے منہ میں چلا گیا۔۴۰؍ہزار فٹ کی بلندی پر درجہ حرارت منفی۶۰؍ ڈگری سینٹی گریڈ تک گر گیا تھا اور آکسیجن کی مقدار بھی خطرناک حد تک کم تھی۔پردیپ  پہنچ تو گیا مگر ۶؍سال تک ڈپریشن کا شکار رہا تاہم وہ برطانیہ میں جا بسنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب وہ شادی شدہ ہے ، ۲؍بچے ہیں اور ہیتھرو  ایئرپورٹ پر ملازمت کرتا ہے  ۔ 
ایسے سفر میں ۷۷؍ فیصد ہلاک ہوجاتے ہیں
 انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس طرح  چھپ کر سفر کرنے میں ہلاکت کی شرح ۷۷؍ فیصد ہے۔ امریکہ کے فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن   کے مطابق  ۱۹۴۷ء سے  ۲۰۲۱ء کے درمیان ۱۳۲؍ افراد نےکمرشیل طیاروں کے لینڈنگ گیئر میں  چھپ کر سفر کرنے کی کوشش کی۔ یہ جان لیوا اقدام اکثر المیہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ جہاز کی بلندی پر شدید سردی، آکسیجن کی کمی اور دباؤ کی کمی انسان کیلئے مہلک ثابت ہوتی ہے۔
طیارہ میں چھپ کر سفر کے  چند واقعات
۱)۲۰۱۴ءمیں کیلیفورنیا سے۱۶؍سالہ لڑکا یحییٰ عابدی نے ہوائی تک ۵؍ گھنٹے کا سفر پہیوں کی جگہ میں بیٹھ کر طے کیا اور حیرت انگیز طور پر  زندہ پہنچا۔ ماہرین  اسے معجزہ قرار دیتے ہیں کیونکہ ۳۹؍ ہزار فٹ کی بلندی  پر درجہ حرارت  ہی غیر معمولی طور پر کم نہیں ہوتا بلکہ آکسیجن کی بھی کمی ہوتی ہے اور سانس لینا دشوار ہوتاہے۔ 
۲)نومبر۲۰۲۱ء میں ایک۲۶؍سالہ شخص گوئٹے مالا سٹی سے میامی جانےوالی پرواز میں چھپ گیا اور ۲؍گھنٹے سے زائد سفر کے بعد وہ نیم بیہوشی کی حالت میں ملا لیکن زندہ تھا۔
۳) ۱۹۹۹ءمیں گنی کے ۲؍ نوجوان یگوئین کوئٹا اور فودے ٹونکوڑا بلجیم جانے والےطیارہ میں چھپ گئے، مگر سخت سردی کے باعث دورانِ پرواز دونوں کی جان چلی گئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK