مسلم ووٹ بینک ،اپوزیشن اتحاد کی سیاست اور بی جے پی کے خلاف مضبوط بیانیہ کھڑا کرنے میں مددملےگی۔
EPAPER
Updated: September 25, 2025, 1:59 PM IST | Hamidullah Siddiqui | Lucknow
مسلم ووٹ بینک ،اپوزیشن اتحاد کی سیاست اور بی جے پی کے خلاف مضبوط بیانیہ کھڑا کرنے میں مددملےگی۔
سماجو ادی پارٹی کے سینئر لیڈر اور سابق کابینی وزیرمحمد اعظم خان نہ صرف اترپردیش کی اقلیتی سیاست کا اہم ستون رہے ہیں بلکہ اپنی جارحانہ سیاست، مضبوط بیانیے اور تنظیمی صلاحیتوں کی بدولت وہ ہمیشہ سرخیوں میںبھی رہے ہیں۔اعظم خان کی رہائی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ریاست میں حکمران بی جے پی اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوششوں میں ہے اور اپوزیشن کے مختلف دھڑے اپنی زمین بچانے کے لئے نئے اتحاد تلاش کر رہے ہیں۔ ایسے میں ان کی سیاسی میدان میں واپسی کو ایک بڑی سیاسی پیش رفت مانا جا رہا ہے۔
۲۳؍ماہ کی قید کے بعدجب محمد اعظم خاں جیل سے باہر نکلے تو ان کے اگلے سیاسی قدم کےبارے میں قیاس آرائیاں تیزہوگئیں۔بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ اعظم خان کے مسلم ووٹ بینک پر خاصے اثرات ہیں۔ ان کی موجودگی سماجوادی پارٹی کواترپردیش میں نئی جان دے سکتی ہے۔ مسلم ووٹ بینک کی سیاست، اپوزیشن اتحاد کی تشکیل اور بی جے پی کے خلاف مضبوط بیانیہ کھڑا کرنے میں ان کی اہمیت سے انکارنہیں کیا جا سکتا ہے۔حالانکہ انہوں نے ابھی تک کوئی واضح اشارہ نہیں دیا ہے مگر سماجوادی پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری شیو پال سنگھ یادو کے بیان نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اعظم خان کسی دیگرسیاسی پارٹی میں شامل نہیں ہوں گے۔
اعظم خان کی رہائی کے بعد یہ سوال اہم ہے کہ وہ جارحانہ سیاست کے بجائے مفاہمانہ سیاست اپناتے ہیں یا پرانے انداز میں بی جے پی کو للکارتے ہیں۔ وہ اگر اپنی سیاسی حکمتِ عملی کو نوجوان قیادت، بالخصوص اکھلیش یادو کے ساتھ بہتر ہم آہنگی میں ڈھال پاتے ہیں تو آنے والے دنوں میں ایس پی کے لئےیہ بڑی کامیابی ہوگی۔ پچھلے انتخابات میں مسلم ووٹوں کا ایک حصہ کانگریس اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کی طرف جھکا تھا۔ اعظم خان کی واپسی اس ووٹ بینک کو دوبارہ سماجوادی پارٹی کے پلڑے میں لا سکتی ہے۔
سماجوادی پارٹی اور کانگریس کے لیڈران نے’انقلاب ‘ کو بتایا کہ اترپردیش کی سیاست میں محمد اعظم خاں کونظراندازکرناآسان کام نہیں ہے۔سماجوادی پارٹی کے قومی ترجمان عبدالحفیظ گاندھی کا کہنا ہے کہ اعظم خان نے ہمیشہ دلتوں، کمزوروں، کسانوں، غریبوں، مزدوروں اور مظلوموں کی حمایت کی ہے۔ جیل کی دیواریں ان کی ہمت اور جذبے کو کمزور نہیںکرسکیں بلکہ ان کے عزم کو مزید مضبوط کیا ہے۔عبدالحفیظ گاندھی کا ماننا ہے کہ جیل سے رہائی کے بعد، مظلوموں کی آواز بلند ہو گی، اور سیکولرزم کی لڑائی اور بھی زیادہ طاقت کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ اعظم خان کی جدوجہد انصاف، مساوات اور بھائی چارے کی راہ کو مزید مضبوط کرے گی۔ سماجوادی پارٹی کے ہی ایک نوجوان لیڈرواور قومی ترجمان محمد اعظم خاں کا کہنا ہے کہ پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری محمد اعظم خاں کی رہائی نے بی جے پی جیسی فسطائی طاقتوں کو ایک دھچکا پہنچایا ہے کیونکہ اعظم خان حب الوطنی، قانون سے عقیدت، سوشلزم، سیکولرزم اور گنگا جمنی ثقافت کے حامی ہیں۔ ان کی رہائی کے بعد، بی جے پی اور اس کے حمایت یافتہ میڈیا نے متعدد افواہیں پھیلائیں کہ اعظم خان سماجوادی پارٹی چھوڑ رہے ہیں جوکہ صرف ایس پی کی طاقت کو کم کرنے اور پی ڈی اے عوام کو الجھانے کے لئے کیا گیا ہے کیونکہ محمد اعظم خان سوشلسٹ تھے، سوشلسٹ ہیں اور ہمیشہ سوشلسٹ رہیں گے۔
محمداعظم خان کی رہائی سے کانگریس پارٹی کوبھی خوشی ہوئی ہے اورپارٹی کےترجمان منیش ہندوی نےیوپی کی سیاست کے لئے اہم موڑقراردیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’’یوگی حکومت نے صرف اور صرف ذاتی تعصب کی وجہ سے اعظم خان کو بے شمار بے بنیاد مقدمات میں پھنسایا اور انہیں طویل عرصے تک جیل میں بند رکھا۔اعظم خان کو مسلمان ہونے کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا ہے۔اعظم خان انڈیا الائنس کی مضبوط آواز ہیں اور ہم مل کربی جے پی کی اس آمرانہ حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے‘‘۔
سیاسی مبصرین کا ماننا ہےکہ بی جے پی نے اب تک اقلیتوں میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لئے کئی اقدامات کئے ہیں، مگر اعظم خان کی سیاست ہمیشہ ان کےلئے چیلنج رہی ہے۔ آنے والے اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں وہ اقلیتی مسائل کو اجاگر کر کے بی جے پی کے بیانیے کو سخت ٹکر دے سکتے ہیں۔ اگر ایس پی، کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اتحاد میں آتی ہیں تو اعظم خان کی موجودگی اور اثر و رسوخ اس اتحاد کو مزید طاقت دے گی اور مسلم ووٹوں کو منتشر ہونے سے روک سکتی ہے۔