Updated: December 29, 2025, 9:54 PM IST
| Sydney
سڈنی کے بونڈی بیچ پر ۱۴؍ دسمبر کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں احمد الاحمد نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نہ صرف ایک حملہ آور کو بے اثر کیا بلکہ ممکنہ طور پر بہت سی جانیں محفوظ بنائیں۔ ان کی بہادری نے انہیں عالمی سطح پر ہیروبنادیا، اور ان کیلئے عوامی امداد اور سرکاری اعزازات جاری ہیں۔ باوجود اس کے کہ وہ بھی زخمی ہوئے، ان کا مقصد صرف لوگوں کی حفاظت کرنا تھا، اور یہی ان کی کہانی کو سب سے زیادہ قابلِ احترام بناتی ہے۔
بونڈی بیچ فائرنگ کے ہیرو احمد ال احمد۔ تصویر: ایکس
سڈنی کے مشہور بونڈی بیچ پر ۱۴؍ دسمبر ۲۰۲۵ء کو ہونے والے دہشت گردانہ فائرنگ واقعے میں احمد ال احمد نے نہ صرف خود اپنی جان خطرے میں ڈالی بلکہ ایک حملہ آور کو ناکارہ بنا کر درجنوں افراد کی زندگی بچائی۔ اس حملے میں ۱۵؍ افراد ہلاک اور کم از کم ۴۰؍ زخمی ہوئے، جسے آسٹریلیا کی تاریخ کا ایک بدترین دہشت گردانہ واقعہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ اجتماعی فائرنگ واقعہ حنوکہ کے دوران پیش آیا، جب یہودی برادری کے لوگ تہوار میں شریک تھے۔ دو حملہ آور ، ساجد اکرم اور اس کا بیٹا نوید اکرم ، نے ہجوم پر اچانک اندھا دھند گولیاں چلائیں۔ اہلِ اقتدار نے اس کارروائی کو ’’نفرت انگیز دہشت گردانہ حملہ‘‘ قرار دیا ہے۔
احمد الاحمد: غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ
۴۳؍ سالہ شامی آسٹریلوی دکاندار احمد الاحمد نے اس خطرناک صورتحال میں نہ صرف خود کو بہادر ثابت کیا بلکہ اپنے عمل سے ممکنہ طور پر بہت سی زندگیوں کو بچایا۔ انہوں نے سی بی ایس نیوز کے ساتھ اپنے پہلے انٹرویو میں بتایا کہ ان کا واحد ہدف حملہ آور سے ہتھیار چھیننا اور مزید قتل و غارت روکنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں نے کچھ بھی نہیں سوچا سوائے اس کے کہ میں ممکنہ طور پر کتنی زندگیاں بچا سکتا ہوں۔‘‘
دونوں حملہ آوروں کے حملے میں چھوٹے بم پھینکے گئے، مگر وہ پھٹ نہیں سکے، اور بعد میں پولیس نے ساجد اکرم کو ہلاک اور نوید اکرم کو زخمی حالت میں حراست میں لے لیا۔ نوید پر متعدد قتل اور دہشت گردی کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسٹاک ہوم میں اسرائیل کے ذریعے غزہ پر جاری حملوں کے خلاف مظاہرہ
فیصلہ کن لمحہ اور فوٹیج
جیسے ہی فائرنگ شروع ہوئی، احمد نے ایک کھڑی گاڑی کے پیچھے چھلانگ لگائی اور ایک حملہ آور پر دوڑ کر اس کا اسلحہ چھیننے کی کوشش کی۔ ویڈیو فوٹیج میں دیکھا گیا کہ وہ اسے پیچھے سے گرا کر زمیں پر قابو پانے میں کامیاب ہوا۔ احمد نے بتایا کہ انہوں نے آہستہ سے حملہ آور کو کہا کہ ’’ہتھیار ڈال دو، جو کچھ تم کر رہے ہو، وہ روک دو۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں اپنے اپنے اندر ایک طاقت محسوس ہوئی ، ایک شدید خواہش کہ وہ بے گناہ لوگوں کو قتل ہوتے نہ دیکھیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ’’مجھے معلوم ہے کہ میں نے بہت سی زندگیاں بچائیں، خاص طور پر معصوم بچوں اور خواتین کیمگر میں ابھی بھی ان لوگوں کے نقصان پر افسردہ ہوں جنہیں ہم کھو چکے ہیں۔‘‘
زخمی حالت، علاج اور میٹنگز
احمد کو متعدد گولیوں کے زخم آئے ، کچھ رپورٹس کے مطابق چار سے پانچ گولیاں ان کے کندھوں میں لگیں ، جس کے بعد انہیں سڈنی کے سینٹ جارج اسپتال میں داخل کیا گیا، جہاں ان کی کئی سرجریاں ہو چکی ہیں۔ ان کی حالت آہستہ آہستہ بہتر ہو رہی ہے، اور حکام نے تصدیق کی ہے کہ ان کے بائیں بازو کا معمول کے مطابق کام واپس آنا کم از کم چھ ماہ میں ممکن ہو گا یا ہو سکتا ہے۔ آسٹریلیائی وزیر اعظم انتھونی البانیز اور نیو ساؤتھ ویلز کے وزیر اعلیٰ کرس منز نے بھی ان سے ملاقاتیں کیں اور انہیں ’’آسٹریلیا کا ہیرو‘‘ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھئے: میانمار کے متنازعہ انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل، عالمی سطح پر’’بیہودہ تماشا‘ قرار
عوامی حمایت اور مالی امداد
عوامی اور عالمی سطح پر احمد ال احمد کو زبردست حمایت ملی اور ان کیلئے ’’گو فنڈ می‘‘ نامی مہم کے تحت تقریباً ۲۵؍ لاکھ آسٹریلین ڈالر) سے زائد رقم جمع ہو چکی ہے، جو ان کے علاج اور بحالی میں مدد فراہم کرے گی۔
حملے کے پسِ منظر اور تازہ ترین صورتحال
یہ فائرنگ واقعہ آسٹریلیا کی بدترین دہشت گردانہ کارروائیوں میں سے ایک تھا۔ حملہ ایسے وقت ہوا جب تقریباً ایک ہزار لوگ بونڈی بیچ پر حنوکہ منا رہے تھے۔ بم سازوسامان اور اسلحہ بھی موقع سے برآمد ہوا ، اور پولیس نے اس واقعہ کو نفرت انگیز دہشت گردی قرار دیا۔ حکومت نے بعد از واقعات سخت گن قوانین نافذ کئے اور ایک آزاد جائزہ کمیٹی تشکیل دی ہے تاکہ یہ تسلیم کیا جا سکے کہ آیا اس حملے کو روکا جا سکتا تھا یا نہیں، جس کی رپورٹ اپریل ۲۰۲۶ء تک متوقع ہے۔ اس دوران، متاثرہ افراد کے اہلِ خانہ نے وفاقی سطح پر رائل کمیشن کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ملک میں بڑھتی نفرت پر مفصل تحقیقات کی جائیں۔