میانمار کے متنازعہ انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل، عالمی سطح پربیہودہ تماشا قرار دیا جا رہا ہے، ایسا انتخاب جو فوجی جنتاکی حکومت کو جائز قرار دینے کے لیے منعقد کرایا گیا ہے، جکہ فوج نے اس انتخاب کو جمہوریت کی بحالی قرار دیا ہے۔
EPAPER
Updated: December 28, 2025, 10:45 PM IST | Naypyidaw
میانمار کے متنازعہ انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل، عالمی سطح پربیہودہ تماشا قرار دیا جا رہا ہے، ایسا انتخاب جو فوجی جنتاکی حکومت کو جائز قرار دینے کے لیے منعقد کرایا گیا ہے، جکہ فوج نے اس انتخاب کو جمہوریت کی بحالی قرار دیا ہے۔
میانمار کے متنازعہ انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل، عالمی سطح پر بیہودہ تماشا قرار دیا جا رہا ہے، ایسا انتخاب جو فوجی جنتاکی حکومت کو جائز قرار دینے کے لیے منعقد کرایا گیا ہے، جبکہ فوج نے اس انتخاب کو جمہوریت کی بحالی قرار دیا ہے۔فوج نے تقریباً پانچ سال بعد جب اس نے بغاوت کرکے اقتدار پر قبضہ کیا، ملک کی اس وقت کی لیڈر آنگ سان سو چی کو معزول اور نظر بند کر دیا، جس سے خانہ جنگی کا آغاز ہوا،یہ انتخاب منعقد کرائے ہیں۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر امیدوار فوجی اتحادی سمجھے جاتے ہیں، اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ انتخاب’’تشدد اور دباؤ‘‘ کے ماحول میں ہو رہا ہے، جسے ایک اہلکار نے ’’بیہودہ تماشا‘‘ قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ انتخابات تین مراحل میں ہو رہے ہیں، دوسرا اور تیسرا مرحلہ جنوری میں طے ہے۔ ملک کے بڑے علاقے ووٹنگ سے خارج ہیں کیونکہ وہ فوجی حکومت کے مخالف گروپوں کے کنٹرول میں ہیں یا شدید لڑائی کا شکار ہیں۔ یونین سولیڈیرٹی اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (USDP)، جو فوجی نمائندہ ہے، سب سے زیادہ امیدوار کھڑی کر رہی ہے اور امید ہے کہ سب سے بڑا بلاک بن کر ابھرے گی۔ جہاں انتخابات ہو رہے ہیں، وہاں مہم پرسکون رہی ہے جبکہ ماضی کے انتخابات کی طرح پرجوش، بھرے ہوئے جلسے نظر نہیں آئے۔ آنگ سان سو چی، جو اب بھی ملک کی مقبول ترین سیاستدان ہیں، اور ان کی پارٹی نیشنل لیگ برائے جمہوریت سے وابستہ سرخ جھنڈے اور نشانات غائب ہیں۔۸۰؍ سالہ لیڈر معزول ہونے کے بعد سے نظر بند ہیں، اور ان کی پارٹی پر پابندی عائد ہے۔
یہ بھی پڑھئے: طارق رحمان کا بطور ووٹراندراج، عثمان ہادی کو خراج عقیدت، بیٹی کا سیاست میں تعارف
دریں اثناء مغربی حکومتوں نے انتخابات کی مذمت کی ہے، جبکہ چین نےحمایت کی ہے، جو فوج کا سب سے اہم اتحادی ہے۔ فوجی کنٹرول والے میڈیا کے مطابق، چین، روس، ہندوستان اور ویتنام نے انتخابات نگران بھیجے ہیں۔ فوج نے انتخابات پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عوامی حمایت سے ہو رہا ہے۔ جنتا کے سربراہ نے اتوار کو نامہ نگاروں سے کہا کہ انتخاب کا انعقاد ہی ’’آزاد اور منصفانہ‘‘ انتخابات ہونے کی ضمانت ہے۔‘‘ بعد ازاں فوجی بغاوت کی قیادت کرنے والے من آنگ ہلانگ نے کہا، ’’یہ فوج کے ذریعے منظم کیا گیا ہے، ہم اپنے نام کو داغدار نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’لوگوں کو ووٹ ڈالنا چاہیے۔ اگر انہوں نے ووٹ نہیں ڈالا، تو مجھے کہنا پڑے گا کہ وہ سمجھتے نہیں ہیں کہ جمہوریت واقعی کیا ہے۔‘‘
ملک بھر میں رائے دہندگان کی شرکت گزشتہ انتخابات کی بہ نسبت کم نظر آئی۔ ووٹنگ اسٹیشن پر، زیادہ تر رہائشی انٹرویو دینے سے گریز کر رہے تھے، کچھ کا کہنا تھا کہ انتخابات پر عوامی بحث کرنا بہت حساس معاملہ ہے۔ ایک ۲۸؍سالہ شخص، جس نے اپنا پورا نام نہیں بتایا، نے کہا کہ ووٹنگ پیپر پر انتخاب بہت کم تھا۔ ہم پہلے ہی انتخابات کے بارے میں جانتے ہیں، کیا ہوگا۔‘‘ دیگر افراد سے جب پوچھا گیا کہ وہ ووٹ کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں، تو بیشتر لوگوں نے صرف کندھے اچکائے یا مسکرائے۔
یہ بھی پڑھئے: جنوبی کوریا: شہری اب شمالی کوریا کے اہم اخبار تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں
تاہم من آنگ ہلانگ نے نامہ نگاروں سے کہا کہ انتخابات کے پہلے مرحلے کے ابتدائی نتائج اتوار کو اعلان کیے جائیں گے، بعد ازاں مقامی وقت کے مطابق شام۴؍ بجے ووٹنگ بوتھ بند ہو گئے۔جبکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ والکر ترک نے کہا کہ انتخابات ’’واضح طور پر تشدد اور دباؤ کے ماحول میں ہو رہے ہیں۔‘‘میانمار کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر برائے انسانی حقوق ٹام اینڈریوز نے اتوار کے انتخاب کو ’’بیہودہ تماشا‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس بات کا خطرہ ہے کہ یہ جنٹا کی حکومت کو مزید مضبوط کر سکتا ہے۔ ووٹ کا دوسرا مرحلہ ۱۱؍ جنوری کو ہوگا، اور آخری مرحلہ ۲۵؍جنوری کو ہوگا۔