Inquilab Logo

اینکروں کے بعد چینلوں کا بائیکاٹ!

Updated: September 17, 2023, 10:42 AM IST | Agency | New Delhi

بے لگام اینکروں کے چینلوں کو اشتہار دینے کا سلسلہ بند کرنے کی تیاری ، اپوزیشن کی ۱۱؍ریاستیں اس قدم پر غور کررہی ہیں، انڈیا اتحاد اینکروں کی دوسری فہرست بھی جاری کرسکتا ہے، پون کھیڑا کے مطابق ’’یہ بائیکاٹ نہیں بلکہ عدم تعاون کی تحریک ہے‘‘

Congress leaders Jairam Ramesh, P Chidambaram and Pawan Kheda during a press conference. Photo: PTI
کانگریس لیڈران جے رام رمیش، پی چدمبرم اور پون کھیڑا پریس کانفرنس کے دوران ۔تصویر: پی ٹی آئی

 ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ اور شعلہ بیان مقرر مہوا موئترا جو فرقہ پرستوں ، بے لگام نیوز اینکروں اور گودی میڈیا کے چینلوں کو ان کے ہی انداز میں اکثر سبق سکھاتی رہتی ہیں ، نے اس مرتبہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ ڈال کر پورے گودی میڈیا اور ان کے چینلوں میں کھلبلی مچادی ہے۔ انہوں نے اپنی پوسٹ میں یہ اطلاع دی ہے کہ ’’اپوزیشن اتحاد کی پارٹیوں کی حکومت والی ۱۱؍ ریاستیں گودی میڈیا کے بے لگام اینکروں کو سبق سکھانے اور ان کا بائیکاٹ کرنے کے بعد اب گودی میڈیا کے نیوز چینلوں کو سبق سکھانے کے بارے میں غور کررہی ہیں ۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا کہ یہ سبق بائیکاٹ کرکے یا انہیں نوٹس بھیج کر نہیں بلکہ انہیں سرکاری اشتہارات نہ دے کر سکھایا جائے گا۔ 
 مہوا موئتراجو اکثر پوری مودی حکومت سے اکیلے ہی مقابلے پر اتر آتی ہیں ، نے بتایا کہ دہلی ، مغربی بنگال ،پنجاب ، ہماچل پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان ، کرناٹک،بہار ، تمل ناڈو ، کیرالا اور جھارکھنڈ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ گودی میڈیا کے چینلوں کو لگام دینے کے لئے ان کےسرکاری اشتہارات روک دئیے جائیں ۔ اس کے لئے میکانزم بنانے پر غور کیا جارہا ہے اور ممکن ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں اس پر مشترکہ فیصلہ کرلیا جائےکہ گودی میڈیا کے ایک بھی چینل کو ان ۱۱؍ ریاستوں کا ایک بھی اشتہار نہیں ملے گا۔ مہوا موئترا نے مزید لکھا کہ ان چینلوں کو بی جے پی کا ایجنڈہ چلانے اور ان کے ترجمانوں کو بلانے کی پوری اجازت ہے۔ ساتھ ہی ہم یہ بھی اجازت دے رہےہیں کہ یہ چینل اپنے لئے فنڈنگ کا انتظام بھی بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں سے کرلیں کیوں کہ اب انہیں کم از کم اپوزیشن کی ریاستوں سے تو کوئی فنڈ ملنے سے رہا ۔ مہوا موئترا نے اپنی پوسٹ کے آخر میں لکھا کہ ’’ اب کھیلا ہوبے، شروعات ہو گئی ہے۔‘‘
  دوسری طرف یہ اطلاعات بھی ہیں کہ انڈیا اتحاد کی جانب سے اینکروں کے بائیکاٹ کی دوسری فہرست بھی جاری ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں انڈیا اتحاد کی میڈیا کمیٹی کے باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ جن ۱۴؍ اینکروں کے بائیکاٹ کی فہرست جاری کی گئی ہے ان میں مزید کچھ نام جوڑے جائیں گے ۔ فی الحال ان اینکروں کے پروگراموں اور خبریں پیش کرنے کے طریقے کا تجزیہ ہو رہا ہے۔ جلد ہی دوسری فہرست بھی جاری کی جائے گی۔ کمیٹی کے ذرائع کے مطابق دوسری فہرست میں بھی زیادہ تر وہ اینکرس ہو سکتے ہیں جو اپوزیشن کے ترجمانوں کو مدعو تو کرتے ہیں لیکن انہیں بولنے نہیں دیتے اور کھلی ہوئی جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اکثر اشتعال انگیزی پر اتر آتے ہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انڈیا اتحاد کی اس فہرست میں اینکروں کے علاوہ ایک نیوز ایجنسی کا نام بھی آسکتا ہے ۔ اس کے تعلق سے فی الحال غور ہو رہا ہے۔ یہ نام کب جاری کئے جائیں گے اس کا کوئی وقت تو نہیں دیا گیا لیکن امید کی جارہی ہے کہ یہ فہرست چند روز میں جاری ہو سکتی ہے۔ 
 ادھرکانگریس کی مجلس عاملہ کی میٹنگ کے بعد منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی لیڈران پون کھیڑا ، جے رام رمیش اور پی چدمبرم نے کئی سوالوں کا جواب دیا جن میں نیوز اینکرس کے بائیکاٹ سے متعلق سوال بھی شامل تھے۔ اس تعلق سےکانگریس لیڈر پون کھیڑا نے کہا کہ ہم نے کسی پر پابندی نہیں لگائی، نہ بائیکاٹ کیا اور نہ کسی کو بلیک لسٹ کیا ہے۔ یہ بائیکاٹ ہے ہی نہیں بلکہ یہ عدم تعاون کی تحریک ہے۔ معاشرے میں نفرت پھیلانے والوں سے ہم تعاون نہیں کریں گے لیکن اگر کل انہیں یہ احساس ہو گیا کہ وہ جو کر رہے ہیں وہ ملک کے لئے ٹھیک نہیں ہے تو ہم دوبارہ ان کے شوز میں جانا شروع کر دیں گے۔ اس پر کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ 
  اس تعلق سے پی چدمبرم نے کہا کہ میڈیا کمیٹی نے جو فیصلہ کیا ہے وہ بہت سوچ سمجھ کر اور تمام پہلوئوں کو دھیان میں رکھ کر کیا گیا ہے۔ میڈیا کمیٹی میں شرد پوار جیسے سینئر اور تجربہ کار سیاستداں ہیں ۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ کیا فیصلہ کررہے ہیں اس لئے فیصلے پر سوال اٹھانے کے بجائے ان اینکروں کے پروگراموں کو ایک مرتبہ دیکھ لیا جائے تو حقیقت خود بخود واضح ہو جائے گی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK