انکوائری چیئرمین نے بتایا کہ تحقیقات کا مقصد یہ طے کرنا ہے کہ آیا اس وقت غیر قانونی ہلاکتوں کے شواہد دستیاب تھے، کیا ان کی مناسب تحقیقات کی گئی اور کیا کوئی ’پرده پوشی‘ ہوئی تھی۔
EPAPER
Updated: December 01, 2025, 9:56 PM IST | London
انکوائری چیئرمین نے بتایا کہ تحقیقات کا مقصد یہ طے کرنا ہے کہ آیا اس وقت غیر قانونی ہلاکتوں کے شواہد دستیاب تھے، کیا ان کی مناسب تحقیقات کی گئی اور کیا کوئی ’پرده پوشی‘ ہوئی تھی۔
برطانیہ کی اسپیشل فورسیز کے ایک سابق سینئر افسر نے برطانوی فوج پر ’جنگی جرائم‘ کا الزام عائد کیا ہے۔ سابق افسر نے عوامی انکوائری کے دوران سنسنی خیز بیان دیا کہ برطانیہ کے اعلیٰ فوجی یونٹس کے ممبران نے بظاہر افغانستان میں ’جنگی جرائم‘ کا ارتکاب کرتے ہوئے رات کے چھاپوں کے دوران مبینہ طور پر حراست میں لئے گئے افراد کو پھانسی دی اور کمانڈ کے اندر ان خدشات کو نظر انداز کیا۔ واضح رہے کہ برطانوی وزارت دفاع حکم پر جاری اس انکوائری میں ان الزامات کی جانچ کی جارہی ہے کہ ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۳ء کے درمیان نیٹو کی قیادت میں مشن کے حصے کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے اسپیشل ایئر سروس کے فوجیوں نے ’مشکوک حالات‘ میں درجنوں افراد کو ہلاک کیا۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ: جنگ بندی کا ۵۲؍ واں دن، ۳۵۷؍ فلسطینی شہید، ۹۰۳؍ زخمی
افغانستان میں برطانوی فوجیوں کے مبینہ ’جنگی جرائم‘ کا انکشاف کرنے والے مذکورہ سینیئر افسر، جو برطانوی اسپیشل فورسیز ہیڈ کوارٹرز میں اسسٹنٹ چیف آف اسٹاف برائے آپریشنز کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، نے گمنام طور پر ”این آئی فور سکس سکس N1466“ کے نام سے ثبوت دیتے ہوئے مزید بتایا کہ چھاپوں کے بعد کی سرکاری رپورٹس میں نمونوں نے سنگین خطرے کی گھنٹیاں بجا دی تھیں۔ انہوں نے انکوائری کمیشن کو بتایا کہ ”کارروائی میں مارے گئے دشمنوں“ کے طور پر درج لوگوں کی تعداد اکثر برآمد کئے گئے ہتھیاروں کی تعداد سے زیادہ تھی۔ اسی طرح، حراست میں لئے گئے افراد کے قبضے کے بعد ان سے ہتھیار چھیننے کی متعدد مرتبہ بیان کی گئی کہانیاں قابل اعتبار نہیں تھیں۔ انہوں نے برطانوی فوج پر ”جنگی جرائم“ کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ حراست میں لئے گئے افراد کو آپریشنل مقامات پر واپس لے جایا گیا اور ’مزاحمت کے جھوٹے بیانیے‘ کے تحت انہیں پھانسی دی گئی۔
این آئی فور سکس سکس نے گواہی دی کہ انہوں نے ۲۰۱۱ء میں اس وقت کے ڈائریکٹر آف اسپیشل فورسیز کے سامنے ان خدشات کا اظہار کیا تھا لیکن اس کے باوجود کوئی مجرمانہ انکوائری نہیں کی گئی۔ تفتیش کے بجائے، صرف حکمت عملیوں کا ایک جائزہ لینے کا حکم دیا گیا تھا۔ افسر نے افسوس کا اظہار کیا کہ وہ اس وقت براہ راست فوجی پولیس کے پاس نہیں گئے۔ بعد ازیں، انہوں نے ۲۰۱۵ء میں باضابطہ طور پر اپنے خدشات کی اطلاع دی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں عالمی فورس کی تعیناتی کا ٹرمپ کا منصوبہ مشکل میں
انکوائری کمیشن کے چیئرمین چارلس ہیڈن-کیو نے کہا کہ تحقیقات کا مقصد یہ طے کرنا ہے کہ آیا اس وقت غیر قانونی ہلاکتوں کے شواہد دستیاب تھے، کیا ان کی مناسب تحقیقات کی گئی اور کیا اس معاملے میں کوئی ’پرده پوشی‘ ہوئی تھی۔ تفتیش کے دوران سامنے آنے والے دیگر شواہد نے، افغان عدالتوں کی طرف سے حراست میں لئے گئے افراد کی رہائی پر فوجیوں میں مایوسی اور زمینی سطح پر کام کرنے والے اسپیشل فورسیز کے یونٹس کے درمیان مقابلہ آرائی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انکوائری تاحال جاری ہے۔