• Mon, 01 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ میں عالمی فورس کی تعیناتی کا ٹرمپ کا منصوبہ مشکل میں

Updated: December 01, 2025, 11:08 AM IST | Agency | Washington

واشنگٹن پوسٹ نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہےکہ کئی غیر ملکی دارالحکومتوں میں یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ آیا ان کے فوجی ایسے حالات میں نہ پھنس جائیں جہاں انہیں فلسطینیوں یا مسلح عناصر کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا پڑے،انڈونیشیا ۲۰؍ ہزار تک امن فوجی بھیجنے والا تھا مگر اب اس نے تعداد کم کردی ہے،آذر بائیجان کی پوزیشن میں بھی تبدیلی

Many countries are hesitant to become part of the international stabilization force in Gaza. Photo: INN
غزہ میں عالمی استحکام فورس کا حصہ بننے میں کئی ممالک ہچکچا رہے ہیں۔ تصویر:آئی این این
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ میں بین الاقوامی فورس تعینات کرنے کی منصوبہ بندی ابتدائی مرحلے میں ہی پیچیدگیوں کا شکار نظر آ رہی ہے کیونکہ ان ممالک میں ہچکچاہٹ بڑھ گئی ہے جن کے بارے میں خیال تھا کہ وہ اس فورس میں حصہ لیں گے۔واشنگٹن پوسٹ نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا کہ کئی غیر ملکی دارالحکومتوں میں یہ خدشات گہرے ہو گئے ہیں کہ آیا ان کے فوجی ایسے حالات میں نہ پھنس جائیں جہاں انہیں فلسطینیوں یا مسلح عناصر کے خلاف طاقت استعمال کرنا پڑے۔
انڈونیشیا اور آذربائیجان کی پوزیشن میں تبدیلی
انڈونیشیا جو پہلے ہی اعلان کر چکا تھا کہ وہ ۲۰؍ ہزار تک امن فوجی بھیجے گا اب ایک بہت چھوٹی فورس بھیجنے پر غور کر رہا ہے۔ جکارتہ کے ایسے حکام نے جو جاری حساس مذاکرات کے سبب نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ،بتایا کہ پالیسی پر نظرثانی ہو رہی ہے۔آذربائیجان جس کے بارے میں بھی توقع تھی کہ وہ بڑی فورس بھیجے گا، اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کر رہا ہے۔ باخبر حکام کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا سوال اب بھی یہی ہے کہ آیا ان بین الاقوامی افواج کو حماس کا اسلحہ سلب کرنے کی ذمہ داری دی جائے گی۔
’یہی اصل مسئلہ ہے‘
انڈونیشیا کی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں داخل ہو  اور قانون و نظم قائم کرے اور کسی بھی مزاحمت کو ختم کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہی اصل مسئلہ ہے۔ کوئی بھی یہ کام کرنا نہیں چاہتا۔‘‘امریکی منصوبے سے واقف ایک ذریعے نے بتایا کہ پاکستان کی سیکوریٹی فورس ۳؍ بریگیڈ یا ممکنہ طور پر ۱۵؍ہزار فوجیوں پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ ایک اور ذریعے نے کہا کہ یہ تعداد بیس ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ انڈونیشیائی فوج ابتدائی مرحلے میں تقریباً ۱۲۰۰؍ فوجیوں کو روانہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے تاہم ان کے اپنے مقامات تک پہنچنے میں چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی افسران اس ذمہ داری کو قبول کرنے میں شدید تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ انہیں اندیشہ ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ مسلح جھڑپوں میں الجھنا پڑ سکتا ہے۔
مشن کی تفصیلات کا انتظار
ایک عرب سفارت کار نے واضح کیا کہ کوئی بھی ملک اس وقت تک اپنے فوجی نہیں بھیجے گا جب تک مشن کی مکمل تفصیلات سامنے نہ آ جائیں۔ایک امریکی اہلکار کے مطابق جب متعلقہ ممالک شرکت پر رضامندی ظاہر کر دیں گے اس کے بعد فورس کی تربیت اور لاجسٹک کی تیاری میں کم از کم کئی ہفتے لگیں گے۔انڈونیشیا میں اکتوبر کے وسط میں جاری ہونے والی ایک داخلی فوجی رپورٹ میں بتایا گیا کہ انڈونیشیائی فوجیوں کو ان علاقوں میں تعینات کرنے پر غور ہو رہا ہے جو اسرائیلی کنٹرول سے باہر ہوں۔رپورٹ میں اس امکان کا ذکر نہیں کیا گیا کہ بین الاقوامی فورس غزہ کے اس حصے میں ’محفوظ‘ شہری علاقوں کی نگرانی کرے گی جو اب بھی اسرائیلی فوجی کنٹرول میں ہیں۔ان شہری مراکز سے متعلق بھی زیادہ معلومات سامنے نہیں آئیں۔ ایک اسرائیلی سیکوریٹی اہلکار نے بتایا کہ ان مجوزہ شہری علاقوں میں سرکاری دفاتر، بیکریاں اور دیگر کام کی جگہیں شامل ہوں گی جنہیں ’پائلٹ سائٹس ‘ کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے تاکہ فلسطینیوں کو ان کی طرف راغب کیا جا سکے اور تعمیر نو کے بین الاقوامی منصوبوں میں شرکت بڑھائی جا سکے۔
یاد رہے کہ اسرائیل اب بھی غزہ سے متعلق معاہدے کے دوسرے مرحلے میں رکاوٹ ہے جس میں تعمیر نو، بین الاقوامی فورس کی تعیناتی اور عبوری حکومت کی تشکیل جیسے نکات شامل ہیں۔ اسرائیل اس تاخیر کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ اسے تمام اسرائیلی اسیران کی لاشیں نہیں ملی ہیں (ابھی بھی دو افراد غزہ میں لاپتہ ہیں جن کی تلاش جاری ہے) اور رفح میں پھنسے حماس کے جنگجوؤں کا معاملہ حل طلب ہے۔
جنگ بندی کے ۵۰؍دن،اسرائیلی جارحیت جاری 
غزہ کے سرکاری پریس آفس نے قابض اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے۵۰؍ دن مکمل ہونے کے بعد بھی جاری خطرناک اور منظم خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کی۔ دفتر نے بتایا کہ سنیچر کے روز ان خلاف ورزیوں کی تعداد۵۹۱؍ تک پہنچ گئی، جو بین الاقوامی انسانی قانون اور اس معاہدے کے ضمیمہ انسانی پروٹوکول کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
دفتر نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ یہ مسلسل خلاف ورزیاں۳۵۷؍ شہریوں کی شہادت کا سبب بنیں، جن میں زیادہ تر بچے، خواتین اور معمر افراد شامل ہیں جبکہ ۹۰۳؍ افراد مختلف نوعیت کی زخمی حالت میں ہیں۔ اس کے علاوہ۳۸؍ شہریوں کو یلغار اور حملوں کے دوران بلا جواز گرفتار کیا گیا جو قابض اسرائیل کی اس بات کی تصدیق ہے کہ وہ معاہدے کو کمزور کر کے سیکٹر میں خونریز صورتحال پیدا کرنا چاہتا ہے جو سیکوریٹی اور استحکام کے لیے شدید خطرہ ہے۔بیان کے مطابق اسرائیل کے حملے مختلف نوعیت کے ہیں جن میں۱۶۴؍ براہِ راست فائرنگ کے واقعات شامل ہیں، جن میں شہری، مکانات، رہائشی علاقے اور پناہ گزین خیمے نشانہ بنے،۲۵؍ کارروائیاں قابض اسرائیل کی گاڑیوں کے ذریعے رہائشی اور زرعی علاقوں میں کی گئیں اور۲۸۰؍ حملے زمینی، فضائی اور توپ خانے سے کیے گئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK