کئی بلڈرس، ڈیولپرس، کنٹریکٹرس او ر میونسپل افسران کے خلاف کیس درج ہوا مگر اب تک صرف ایک کیس میں سزا سنائی گئی.
EPAPER
Updated: September 15, 2025, 10:36 AM IST | Agency | Mumbai
کئی بلڈرس، ڈیولپرس، کنٹریکٹرس او ر میونسپل افسران کے خلاف کیس درج ہوا مگر اب تک صرف ایک کیس میں سزا سنائی گئی.
گزشتہ ۳۰؍ برس میں شہر و مضافات اور اطراف کے رہائشی علاقوں میں بے شمارعمارتوں کے زمین بوس ہونے والے واقعات میں ایک دو نہیں بلکہ ۳؍ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔افسوسناک بات یہ ہے کہ انسانی جانوں کے تلف ہونے کے ذمہ داران جن میں بلڈرس، ڈیولپرس، کنٹریکٹر کے علاوہ شہری انتظامیہ کے افسران بھی شامل ہیں،کے خلاف کیس درج کرنے اورگرفتاری کے باوجود تین دہائی گزر جانے کے باوجود محض ایک کیس میں فیصلہ سنایا گیا اور دو لوگوں کو سزا کا مستحق قرار دیا ہے۔ وہیں بلڈنگ سانحہ کے اکثر معاملات میںملزمین کے خلاف مختلف عدالتوں میں سماعت التوا کا شکار ہے۔
عدالتوں میں سست روی سے چلنے والے معاملات کے سبب بعض معاملوں میں نہ صرف ملزم بلڈرس، ڈیولپرس کے علاوہ شہری انتظامیہ کے افسران کو ڈسچارج کر دیا گیا ہے بلکہ کئی معاملات میں ملزمین ضمانت لے کر آزاد گھوم رہے ہیں۔ حال ہی میں وسئی ویرار میں واقع رما بائی اپارٹمنٹ سانحہ میں ۲؍ بچوں سمیت کل ۱۷؍ افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ پولیس نے اس معاملہ میں کارروائی کرتے ہوئے اب تک ڈیولپرس سمیت ۴؍ ملزموں کو گرفتار کیا ہے جبکہ ابتدائی جانچ میں عمارت کے غیر قانونی ہونے کے سبب حادثہ ہونے کا پتہ چلا ہے۔
شہر اور مضافات کی مختلف عدالتوں میں زیر التوا معاملات کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ اکثر عمارتوں میں غیر قانونی تعمیرات کرنے ، انتہائی مخدوش ہونے یا کسی مکین کے اندورنی مرمت کے دوران ستون ( بنیادی ڈھانچہ ) کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے سبب عمارت کے زمین بوس ہونے کے واقعات رونما ہوئے ہیں ۔ گزشتہ۳۰؍ برس میں بے شمار عمارتوں کے زمین بوس ہونے کے ذمہ داران جن میں بلڈر ، کنٹریکٹر اور شہری انتظامیہ کے افسران شامل ہیں ،کی لاپرواہیوں کے سبب ہونے والے حادثات پر متعلقہ کیس کی پیروی کرنے والے وکلا ءکا کہنا ہے کہ ’’ حادثات کے ذمہ دار ملزمین کے خلاف کیس التوا کاشکار ہونے یا طویل مدت تک شنوائی جاری ہونے کے سبب نہ تو متاثرین کو انصاف مل پاتا ہے او رنہ ہی ملزمین کو سزا ہوپاتی ہے ۔
اس ضمن میں وکیل شیشیر ہیرے جو ممبرا لکی کمپاؤنڈ میں زمین بوس ہونے والی عمارت اور مجگاؤں میں بابو گینو نامی عمارت کے انہدام معاملہ میں درج کردہ کیس کی پیروی کررہے ہیں ،کا کہنا ہے کہ عمارتوںکے گرنے کے بعد جن ملزموں کو گرفتار کیا جاتا ہے، ان کیخلاف فاسٹ ٹریک کورٹ میں مقدمہ چلانے پر ہی متاثرین کو انصاف مل سکتا ہے۔ انہوں نے چند بلڈنگوں کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے ملزمین کے ڈسچارج ہونے اور مقدمات کے التوا کا شکار ہونے کی تفصیلات فراہم کیں۔ موصولہ ریکارڈ کے مطابق گزشتہ تین برس میں بلڈنگ گرنے کے متعدد واقعات میں اب تک ۳۲۵؍ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
وکیل شیشیرکے بقول اپریل ۲۰۱۳ء میں ممبرا کے شیل ڈائے گھر کے لکی کمپاؤنڈ علاقے میں آدرش نامی بلڈنگ نہ صرف غیر قانونی طو ر پر تعمیر کی گئی تھی بلکہ تاش کے پتے کی طرح زمین بوس ہوگئی تھی ۔ اس سانحہ میں سب سے زیادہ ۷۴؍ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں کئی بچے بھی شامل تھے۔ مذکورہ معاملہ میں تھانے میونسپل کارپوریشن کےاعلیٰ عہدوں پر فائز سول انجینئرس کے علاوہ آر کیٹیکٹ ، مقامی کارپوریٹر اور ایجنٹوں کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن اب تک اس کا مقدمہ التوا کا شکار ہے اور ملزمین ضمانت لے کر آزاد گھوم رہے ہیں ۔ اسی طرح دوسرا بڑا سانحہ مجگاؤں میں واقع بابو گینو نامی بلڈنگ کے زمین بوس ہونے کا ہے۔ یہ حادثہ ممبرا میں ہوئے حادثہ کےچندماہ بعدستمبر ۲۰۱۳ء میں پیش آیا تھا اور اس حادثہ میں ۶۰؍ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
مذکورہ عمارت کو مخدوش قرار دے دیا گیا تھا ۔ تاہم اس میں رہنے والے ایک مکین کے بنیادی ڈھانچہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے سبب حادثہ پیش آنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔اس سانحہ کی افسوسناک بات یہ ہے کہ شہری انتظامیہ کے گرفتار سارے افسران کو کیس سے ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح اگست ۲۰۱۷ء میں بھنڈی بازار کی حسینی بلڈنگ حادثہ میں ۳۳؍ افراد جبکہ ستمبر ۲۰۲۰ء میں بھیونڈی میں جیلانی بلڈنگ کے گرنے سے ۴۱؍ افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ اسی طرح ۲۰۰۷ء میں بوریولی کی لکشمی چھایا نامی عمارت کے گرنے سے ۳۰؍ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ بھی یاد رہے کہ حال میں وسئی ویرار میں واقع رمابائی اپارٹمنٹ منہدم ہونے پر ۱۷؍ افراد ہلاک ہوئے ہیں اور پولیس نے اس معاملہ میں بلڈر ڈیولپرس سمیت ۴؍ ملزمین کو گرفتار کیا ہے۔