Inquilab Logo

چارکوپ :منہدم شدہ فرنیچر مارکیٹ کے متاثرین اب بھی انصاف کے منتظر

Updated: December 08, 2023, 9:33 AM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

۴۳؍دن بعد نہ تومعاوضہ دیا گیا اورنہ ہی متبادل جگہ ۔ بی ایم سی کی جانب سے ضابطوں کی خانہ پُری اورفوٹو پاس کی جانچ کا حوالہ دیا جارہا ہے جبکہ انہدامی کارروائی سےقبل متبادل جگہ کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔

It is at the time of collapse of furniture market. Photo: INN
فرنیچرمارکیٹ کے انہدام کے وقت کی ہے۔ تصویر : آئی این این

یہاں کے فرنیچر مارکیٹ کے انہدام کو۴۳؍دن گزرچکے ہیں اور۳؍ دسمبر کو ویدک تھیم پارک کی بنیاد رکھ کر بی جے پی کے مقامی  رکن پارلیمان گوپال شیٹی نے کہا تھا کہ ان کا دیرینہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوگیا لیکن متاثرین کا خواب ادھورا ہے اورانصاف کیلئے وہ ادھر ادھر بھٹکنے پر مجبور ہیں۔ بی ایم افسران سے ملاقات پرانہیں جواب دیا جاتا ہے کہ ضابطہ کی خانہ پُری کی جارہی ہے اور آپ کا فوٹو پاس تصدیق کیلئے کلکٹر کے پاس بھیجا گیا ہے۔ تاجروں کاالزام ہے کہ انہیں بے وقوف بنایا جارہا ہے ۔اجاڑنے سے پہلے چکنی چپڑی باتیں کی گئیں اور یقین دہانی کرائی گئی کہ متبادل جگہ دی جائے گی لیکن اب طرح طرح کی پخ لگائی جارہی ہے۔ یہاں ۶۳؍ اسٹرکچر تھے ، ان میں لبِ سڑک ۳۲؍گالے اوربقیہ جھوپڑے تھے۔ ان میں سے وارڈ آفیسر نے محض  ۸؍ تاجروں کو قانونی قرار دیا تھا، بقیہ کے لئے کوئی ٹھوس جواب نہیں دیا تھا۔
ایک اہم سوال یہ ہےکہ ۲۰۰۱ء سے آباد ان دکانداروں اورجھوپڑا باسیوں کو غیر قانونی قبضہ کرنے والا قراردے کر ان کے خلاف انہدامی کارروائی کو قانون کے مطابق قراردیا گیا لیکن یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ بی ایم سی ،کلکٹر ،پولیس اور سیاست دانوں کی ملی بھگت سےاس زمین پرقبضہ کیوں کرنے دیا گیا؟ اُن بدعنوان افسران پرکب کارروائی ہوگی ؟ اگر ان کی ملی بھگت نہ ہوتی تو شاید کوئی قبضہ کرنے کی ہمت نہ کرتا لیکن ان سے پوچھنے اوران کو سزا دینے کےبجائے قصوروار غریب عوام کوقرار دیا جاتا ہے۔
 متاثرین میںشامل قیوم خان نے اپنے دیگر ساتھیوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایاکہ وہ اوران کے۱۰؍ساتھی ،جو ایک گروپ میں ہیں، مسلسل دوڑ  بھاگ کررہے ہیں۔ دو مرتبہ مقامی رکن اسمبلی اسلم شیخ سے ملاقات کرچکے ہیں۔ تین دن قبل ملاقات کے دوران اسلم شیخ نے بی ایم سی افسر مندار چودھری  (جن کے پاس یہ ذمہ داری ہے )سے بات چیت کی توانہوں نے بتایاکہ۱۰؍ لوگوں کی لسٹ بنائی گئی ہے اوران کے فوٹو پاس کوکلکٹر کے پاس دوبارہ تصدیق کےلئے بھیجا گیا ہےکیونکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ فوٹوپاس فرضی ہیں۔اس پر اسلم شیخ نے کہاکہ اگرمان بھی لیاجائے کہ وہ فرضی ہیں توان لوگو ںکے پاس ۲۰۱۰ءسے پہلے کے کافی ثبوت ہیں ،اس کی بنیاد پران کویہ حق ہے کہ انہیں کمرشیل یا پھر ریسیڈینشیل جگہ یا معاوضہ دیا جائے۔ اس پر بی ایم سی افسر نے کہاکہ کام جاری ہے اورجلد ہی اسے مکمل کیاجائے گا۔‘‘ قیوم خان نے یہ بھی بتایا کہ’’ اسی طرح ۸؍ ایسے متاثرین ہیں جن کے پاس فوٹو پاس کی رسید ہے، نہ ان کا کوئی ذکرکیا جارہا ہے اور نہ ہی دیگر متاثرین کاکوئی پرسانِ حال ہے۔ حالانکہ سبھی آج بھی یہ آس لگائے ہوئے ہیں کہ ان کےساتھ انصاف ہوگا اور انہیں متبادل جگہ یا معاوضہ دیا جائے گا ۔‘‘
پی نارتھ وارڈ کےآفیسر کرن دیگاؤکر سے انقلاب کے یہ پوچھنے پرکہ اجاڑے جانے والوں کو معاوضہ یا متبادل جگہ دے دی گئی ؟تو انہوں نےکہاکہ’’ابھی نہیں۔ ہمارے پاس کاندیولی ، دہیسر اورکرلا وغیرہ میںجگہ ہے۔جو قانونی قرار دیئے جائیںگے، ان کویہاں جگہ یا پھر معاوضہ دیا جائے گا ۔ معاوضے کی رقم کیلئے بی ایم سی ہیڈآفس میںہم نے لیٹر دیا ہے۔‘‘
یہ بھی یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی واضح گائیڈ لائن ہے کہ اجاڑنے سے قبل بسایا جائے لیکن یہاں سب کچھ طاق پررکھ کرکارروائی کی گئی اور ۲۲؍برس بعد اچانک متاثرین کو ’انکروچر ‘قرار دےکر بھاری پولیس بندوبست میں۲۶؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو پورا علاقہ خالی کرالیا گیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK