Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’موبائل پر بہت زیادہ وقت گزارنے کی بنا پربچوں کی ذہنی نشو نمامتاثر ہورہی ہے‘‘

Updated: July 14, 2025, 10:28 AM IST | Mumbai

ڈبلیو ایچ او کےمطابق موبائل ۲؍سال سےکم عمر بچوں کوبالکل نہیں دکھانا چاہئے جبکہ۲؍ سے ۵؍ سال کےب چوں کو سخت نگرانی میں زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ دیا جاسکتا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ہندوستان کے ۵؍ شہروں میں  ہونے  والے ایک سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ۲؍ سے ۵؍ سال کے بچوں   میں موبائل کا استعمال ماہرین کی تجویز کردہ حد سے کہیں زیادہ ہے جو اُن کی نشو نما کیلئے نقصاندہ ہے۔  ’بی ایم جے  پیڈیاٹرکس اوپن‘  نامی میگزین میں شائع ہونےوالی  رپورٹ کے مطابق  اکثر بچوں کو موبائل ان کے والدین  بچوں کی نشو نما کو پہنچنے والے نقصان  سے بے خبر رہ کر خود دیتے ہیں۔ یہ رپورٹ ۳؍ ہزار ۶۲۴؍ والدین کے سروے پر مبنی ہے۔ واضح رہےکہ عالمی ادارہ صحت  (ڈبلیو ایچ او)  کے رہنما خطوط کے مطابق ۲؍سال سے کم عمر کے بچوں کو موبائل  سے پوری طرح دور رکھنا چاہئے جبکہ ۲؍ سے ۵؍ سال کے بچوں کو زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے موبائل اسکرین کے سامنے رکھا جاسکتاہے مگر وہ بھی بڑوں کی سخت نگرانی میں ۔ تحقیق میںیہ بات سامنے آئی ہے کہ ’’اکثر والدین بچوں کیلئے اسکرین ٹائم کا استعمال اپنے آرام ، گھریلو کام کاج کیلئے بچے کی ذمہ داری سے فارغ ہونے  یا بچوں کو چپ کرانے کیلئے کرتے ہیں۔‘‘  رپورٹ کے مطابق حیرت انگیز طور پر اکثر والدین اسے بچوں کیلئے فائدہ مند سمجھتے ہیںجبکہ   اس کا نقصان  زیاہ ہے ۔ اس کی وجہ سے بچوںکی بات چیت اور لوگوں سے تال میل کم ہوجاتا ہے، جسمانی سرگرمی متاثر ہوتا ہے اور  وہ ایسے کھیل کود   سے محروم ہوجاتے ہیں جوان کی نشو نما کیلئے ضروری ہیں۔
اس تحقیقی رپورٹ کے معاون ایڈیٹر پریانک بھوٹانی  جو  تیزپور یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اسکالر اور بچوں  کے گویائی و سماعت  کے مسائل کے ماہر ہیں، نے  بتایا کہ یہ تحقیق اس لیے کی گئی کیونکہ ہندوستان میں بچوں میں اسکرین ٹائم کے اثرات سے متعلق تحقیق اور ڈیٹا کی شدید کمی تھی۔

 عروف انگریزی اخبار ’’انڈین ایکسپریس‘‘ سے گفتگو میں  انہوں نے یہ چونکادینےوالا انکشاف کیاکہ’’ تحقیق سے پتہ چلا کہ تقریباً۱۳؍ فیصد بچے روزانہ ۸؍ گھنٹے تک موبائل اسکرین دیکھتے ہیں اور ۷۰؍ سے ۸۰؍  فیصد والدین کو تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ اس ضمن میں ڈبلیو ایچ او کے رہنما اصول کیا ہیں۔‘‘ ڈبلیو ایچ او کے مطابق  موبائل کے بجائے میں بچوں میں کتابیں پڑھنے یا کہانی سننے جیسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔  بھوٹانی  نے بتایاکہ ’’بچوں کو موبائل انہیں کھانا کھلانے، چپ کرانے اور مصروف رکھنےکیلئے کیا جاتاہے۔‘‘ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ’’جن بچوں کا اسکرین ٹائم زیادہ تھا، وہ والدین اور اپنے ہم عمردوستوں سے کم گفتگو کرتے تھے۔گھر سے باہرکھیل کود میں بھی ان کی شمولیت کم  ہے اور وہ تخلیقی سرگرمیوں میں بھی کم دلچسپی لیتے ہیں۔‘‘پریانک بھوٹانی  نے بتایا کہ موبائل  اسکرینس  والدین کیلئے’’ڈیجیٹل معاون‘‘ بن گئے ہیں   جس  پر کورونا  کی وبا کے دوران  انحصار اس قدر بڑھ گیا کہ اب یہ ناگزیرہوگیاہے۔بچوں میں موبائل کے استعمال کے نقصانات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں  نےبتایاکہ ’’یہ رجحان  بطورخاص اس لیے تشویشناک ہے کہ اسکرینس بچوں کو سیکھنے کے اہم لمحات  سے محروم کررہی ہیں۔ ان کے مطابق ’’مثال کے طور پر جب کوئی بچہ موبائل اسکرین کو دیکھتے ہوئے کھانا کھاتا ہے، تو وہ کھانے کے تجربہ سے بے پروا ہوتا ہے، نہ اس کی خوشبو کو سمجھ پاتا ہے  نہ ذائقے کا اسے احساس ہوتاہے۔‘‘ بھوٹانی نے نشاندہی کی کہ کھانے کے وقت بچوں کو کھلاتے وقت ان  باتیں کرنےوالا معاملہ ختم ہونےلگا ہے جیسے پہلے والدین کہتے تھے کہ لو منہ کھولو، کھاؤ ،دیکھو یہ کتنا مزے دار ہے ۔ اب ایسی کوئی بات چیت نہیں ہوتی۔بھوٹانی جو بچوں میںگویائی اور سماعت کے مسائل کے ماہر ہیں،اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر بتاتے  ہیں کہ’’ اکثر والدین ا یہ شکایت لے کر آتے ہیں کہ  بچوں میں بولنے اور زبان سیکھنے میں تاخیر ہورہی ہے۔‘‘انہوں نے اس مسئلے کی جڑ کو یوں بیان کیا کہ ’’زبان  سیکھنے کا ایک عمل  ہے، یہ خودبخود نہیں آتی۔ اسکرین دو طرفہ گفتگو نہیں کر سکتی۔ زبان سیکھنے کیلئے سماجی ماحول ضروری ہے جس میں  دوطرفہ گفتگو ہو۔‘‘

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK