غزہ کی مسیحی برادری مسلسل تیسرے سال کرسمس کے موقع پر زیارت سے محروم ہے۔ اسرائیلی پابندیوں، چرچ پر بمباری اور جنگ کے باعث یہ قدیم برادری شدید نقصان، بے گھری اور نفسیاتی صدمے سے گزر رہی ہے، تاہم اس کے باوجود امن اور وطن واپسی کی امید برقرار ہے۔
EPAPER
Updated: December 24, 2025, 9:02 PM IST | Bethlehem
غزہ کی مسیحی برادری مسلسل تیسرے سال کرسمس کے موقع پر زیارت سے محروم ہے۔ اسرائیلی پابندیوں، چرچ پر بمباری اور جنگ کے باعث یہ قدیم برادری شدید نقصان، بے گھری اور نفسیاتی صدمے سے گزر رہی ہے، تاہم اس کے باوجود امن اور وطن واپسی کی امید برقرار ہے۔
کرسمس کی آمد کے ساتھ ہی دنیا بھر میں مسیحی برادری عبادات اور خوشیوں کی تیاری کرتی ہے، مگر غزہ کی تاریخی مسیحی برادری کے لیے یہ دن مسلسل تیسرے سال بھی سوگ، محرومی اور یادوں کے بوجھ کے ساتھ آ رہے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے عیسائیوں کو بیت المقدس اور بیت لحم کی مذہبی زیارت سے روکنے کے باعث وہ ان مقامات تک نہیں جا پا رہے جنہیں بائبل میں حضرت عیسیٰؑ کی جائے پیدائش اور مسیحی ایمان کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت غزہ میں صرف دو گرجا گھر فعال ہیں: یونانی آرتھوڈوکس چرچ آف سینٹ پورفیریس اور چرچ آف دی ہولی فیملی۔ یہ دونوں ادارے اسرائیلی بمباری کے آغاز کے بعد بے گھر ہونے والے تقریباً ۹۰۰؍ فلسطینی عیسائیوں کو پناہ دیے ہوئے ہیں۔ غزہ کی مسیحی برادری، جسے دنیا کی قدیم ترین برادریوں میں شمار کیا جاتا ہے، اب محض ایک ہزار کے قریب رہ گئی ہے۔
The lighting of the Christmas Tree in Bethlehem, the birthplace of our Lord. Christmas and Easter are the 2 most important times of the year for indigenous Middle East Christians. We pray for a safe and peaceful Christmas season. 🙏🏼✝️ pic.twitter.com/LzWKGOilWU
— Iraqi Christian Foundation (@iraqschristians) December 7, 2025
جنگ کے دوران غزہ شہر کے کئی فلسطینی عیسائیوں نے جنوب کی جانب نقل مکانی سے انکار کیا۔ انہوں نے زمینی کارروائیوں اور شدید حالات کے باوجود اپنے گھروں اور گرجا گھروں کے قریب رہنے کا فیصلہ کیا، حالانکہ ان مقامات کو بارہا نشانہ بنایا گیا۔ اس سلسلے کا سب سے تباہ کن واقعہ ۱۹؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو پیش آیا، جب یونانی آرتھوڈوکس چرچ پر بمباری میں ۱۸؍ افراد جان سے گئے۔ اس وقت تقریباً ۵۰۰؍ مسلمان اور عیسائی شہری وہاں پناہ لیے ہوئے تھے۔ یہ زخم آج بھی غزہ کے عیسائیوں کے دلوں میں تازہ ہیں۔ غزہ شہر کی رہائشی ۵۵؍ سالہ سلوا ایاد بتاتی ہیں کہ جنگ سے پہلے وہ اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ تعطیلات مناتیں اور بیت لحم کے چرچ آف دی نیٹیویٹی میں عبادت کے لیے اجازت نامے کا انتظار کرتیں۔ جنگ کے آغاز پر بے گھر ہونے کے بعد انہوں نے یونانی آرتھوڈوکس چرچ میں پناہ لی۔ ان کے مطابق، اب تعطیلات خوشی نہیں بلکہ ان لوگوں کی یاد دلاتی ہیں جو چرچ پر بمباری میں مارے گئے۔ وہ کہتی ہیں کہ تیسرے سال بھی وہ چھٹیوں سے محروم ہیں اور ہر دن مسیحی شہداء کی یاد کے ساتھ گزرتا ہے۔
۴۷؍ سالہ رمیز السوری کے لیے یہ سانحہ زندگی بدل دینے والا ثابت ہوا۔ چرچ پر بمباری میں ان کے تینوں بچے جان سے گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس رات کے بعد ان کی زندگی رک گئی۔ وقت گزرنے کے باوجود یہ درد کم نہیں ہوا۔ ان کے مطابق، جنگ میں انہوں نے گھر، روزگار اور اپنے بچے سب کھو دیے، جبکہ ان کی اہلیہ شدید صدمے کے باعث بلند فشار خون میں مبتلا ہو گئیں۔ اب وہ بیرونِ ملک رہ کر صحت یاب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ کبھی غزہ لوٹ سکیں گے یا نہیں۔ غزہ کے تمام متاثرین میں بچے سب سے زیادہ زد میں آئے ہیں۔ ۱۳؍ سالہ لیلیٰ اینٹون بتاتی ہیں کہ انہوں نے جنگ میں اپنے دوست کھو دیے، جن میں وہ بچے بھی شامل ہیں جو چرچ پر بمباری میں اپنے والدین کے ساتھ مارے گئے۔ وہ کہتی ہیں کہ عیسائی بچے بھی مسلمان بچوں کی طرح گھروں، اسکولوں، قحط اور بے گھری کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے لیے چرچ پناہ گاہ تھا، مگر جنگ نے ان کے بچپن کے حقوق چھین لیے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل پر۷؍ اکتوبر کے حملے کے بعد نیتن یاہو کی پہلی فکرخود کو جوابدہی سے بچانے کی تھی
جو عیسائی غزہ سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے، ان کے لیے بھی تعطیلات تنہائی اور جدائی کا احساس بڑھا دیتی ہیں۔ ۴۱؍ سالہ کامل ایاد، جو اب مصر میں مقیم ہیں، کہتے ہیں کہ وہ ہر لمحہ غزہ واپسی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ان کے مطابق، یونانی آرتھوڈوکس چرچ پر بمباری نے پورے غزہ کو ہلا دیا اور اسی سانحے نے انہیں جنگ کے ختم ہونے تک نکلنے پر مجبور کیا۔جیسے جیسے کرسمس قریب آ رہا ہے، غزہ کے عیسائیوں کی امیدیں وطن واپسی اور امن سے جڑی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کبھی کرسمس اور نئے سال کی روشنیوں سے جگمگاتا تھا، مگر دو سال سے زائد عرصے سے یہ خوبصورتی ماند پڑ چکی ہے۔ اس کے باوجود، وہ اس امید کے ساتھ زندہ ہیں کہ غزہ میں غم اور جنگ کا خاتمہ ہوگا اور ایک دن وہ پھر سے امن کے ساتھ اپنی عبادات ادا کر سکیں گے۔