Updated: November 04, 2025, 3:13 PM IST 
                                
                                
             
            
 
                اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ دنیا میں بڑھتی ہوئی بھوک اور غذائی عدم تحفظ وسائل کی کمی نہیں بلکہ غلط فیصلوں، ناکام پالیسیوں، تنازعات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ جنرل اسمبلی کی صدر اینالینا بیرباک نے دوحہ میں عالمی لیڈران سے خطاب میں کہا کہ یہ بحران انسانوں کی پیدا کردہ ناانصافیوں کا عکاس ہے جبکہ دنیا کے پاس تمام کیلئے کافی خوراک موجود ہے۔
             
            اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ دنیا میں بھوک کا بڑھتا ہوا بحران کسی قدرتی یا وسائل کی کمی کا نتیجہ نہیں بلکہ انسانی غلطیوں، ناکام پالیسیوں اور معاشی ناہمواریوں کا نتیجہ ہے۔ جنرل اسمبلی کی صدر اینالینا بیرباک نے دوحہ میں منعقدہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ سوچنا کہ لوگ اس لئے بھوکے ہیں کیونکہ کھانا کم ہے، بالکل غلط ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کھانا موجود ہے لیکن سب تک پہنچ نہیں پاتا۔‘‘ بیرباک نے کہا کہ گزشتہ برس دنیا بھر میں ۶۷؍ کروڑ سے زائد افراد نے بھوک کا سامنا کیا جبکہ ۳ء۲؍ ارب افراد متعدل یا شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار تھے۔ ان کے مطابق ’’یہ وہ دنیا ہے جہاں روزانہ ایک ارب سے زائد کھانے پینے کی اشیاء ضائع ہوجاتی ہیں لیکن پھر بھی کروڑوں لوگ اگلے کھانے کی فکر میں ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے:ٹرمپ ٹیرف کا اثر، ہندوستانی برآمدات میں کمی
انہوں نے زور دیا کہ بھوک کا مسئلہ مکمل طور پر حل کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ عالمی برادری منصفانہ پالیسیاں اپنائے اور خوراک تک سب کی مساوی رسائی یقینی بنائے۔ ان کے مطابق ’’ناکامی خوراک کی پیداوار میں نہیں بلکہ اس کی تقسیم، استطاعت اور سماجی تحفظ کی کمی میں ہے۔‘‘ اقوام متحدہ کی صدر نے ماحولیاتی تبدیلیوں کو بھی بھوک کے بحران میں اضافے کا اہم سبب قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ افریقی خطے ساحل کے حالیہ دورے کے دوران انہوں نے دیکھا کہ زرخیز زمینیں اب بنجر مٹی میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافے اور بارشوں میں کمی کے باعث لاکھوں افراد اپنی خوراک کھو رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ: اسرائیل نے انسانی زندگی کے ’’۳۰؍ لاکھ سے زائد سال‘‘ ضائع کردیئے
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر عالمی درجہ حرارت کو ۵ء۱؍ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود نہ رکھا گیا تو مزید ۸ء۱؍ ارب افراد کو غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم اگر ممالک ماحولیاتی موافقت اور پائیدار زراعت میں سرمایہ کاری کریں تو لاکھوں افراد کو غربت سے بچایا جا سکتا ہے۔ بیرباک نے بتایا کہ بھوک اور غربت کے خلاف قائم عالمی اتحاد جو ۲۰۲۴ء میں برازیل کی جی ۲۰؍ صدارت کے دوران شروع کیا گیا تھا، اب تقریباً ۲۰۰؍ اراکین تک پھیل چکا ہے، جن میں ۱۰۰؍ سے زائد ممالک، علاقائی تنظیمیں، عالمی ادارے اور سول سوسائٹی گروپ شامل ہیں۔ دوحہ اجلاس اس اتحاد کا پہلا سربراہی اجلاس تھا جس میں سماجی تحفظ کے فروغ اور ماحولیاتی لچکدار زراعت کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ اپنی تقریر کے اختتام پر بیرباک نے کہا کہ ’’ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں خوراک کی کوئی کمی نہیں، لیکن انصاف کی کمی ہے۔ بھوک سے پاک دنیا کوئی خواب نہیں بلکہ حقیقت بن سکتی ہے،اگر ہم اجتماعی طور پر درست فیصلے کریں۔‘‘