Inquilab Logo

کورونا کی بیماری کے خوف کے دوران دھولیہ میں تین مسلم نوجوانوں نے لاوارث لاش کو اسپتال پہنچایا

Updated: April 09, 2020, 5:40 AM IST | Correspondent | Dhulia

یہ لاش ۲۴؍گھنٹوں سے زیادہ وقت سے ہیرے میڈیکل کالج اور اسپتال کے باہر پڑی تھی لیکن اسپتال کے عملے نے ہاتھ لگانے کی ہمت نہیں کی۔ کارپوریٹر امین پٹیل کے ساتھ عبداللطیف اور ظفر احمد نامی۲؍ نوجوانوں نے اپنے ذاتی ایمبولینس سے لاش کو پہلے پوسٹ مارٹم کیلئے دوسرے اسپتال لے گئے پھر واپس ہیرے اسپتال میں لاکر وہاں رکھا، جہاں لاوارث لاشیں رکھی جاتی ہیں

Dhulia Dead Body - Pic : Inquilab
دھولیہ کے مسلم نوجوانوں کا قابل ستائش قدم ۔ تصویر : انقلاب

کورونا وائرس کی بیماری کے پیش نظر ڈر و دہشت کا ایسا ماحول  ہے کہ بیشتر افراد کے دلوں میں انسانیت  پر خوف کا عنصر غالب آچکا ہے...  لیکن اس برے دو ر میں بھی کچھ جیالے ایسے ہیں جو بے خوف ہوکر انسانیت کی خدمت انجام دے رہے  ہیں۔اس خوف ناک بیماری سے ڈر کی وجہ سے لوگ  کورونا تو چھوڑیئے ، کسی اور مرض میں مبتلابیمار انسان کو   ہاتھ لگانے یا اس کے قریب جانے سے بھی گھبرا رہے ہیں.....لیکنسب ایسے نہیں ہیں۔
 بلند ہمتی  اور انسانی جذبے کا ایک بہترین مظاہرہ  ابھی دھولیہ کے ہیرے میڈیکل کالج کے پاس ایک لاوارث نعش کے تعلق سے سننے اور دیکھنے کو ملا۔ یہاں پر کارپوریٹر امین پٹیل، انصاری عبداللطیف اور ظفر احمد نامی تین نوجوانوں نے ایک لاوارث نعش کو اپنے ہاتھوں سے ایمبولینس میں ڈال کر ہیرے میڈیکل کالج تک پہنچانے کا انسانیت نواز کام انجام دیا۔کارپوریٹر امین پٹیل ان دنوں ہیرے میڈیکل کالج اینڈ اسپتال میں ضرورت مند مریضوں کو اسپتال میں درپیش آنےوالی دشواریوں کو دور کرنے اور اپنی دسترس کے مطابق مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کی داد رسی کیلئے جاتےہیں۔منگل کو دوپہر میں انھیں اسپتال کے ’وارڈبردر‘ کے ذریعے فون پر اطلاع موصول ہوئی کہ اسپتال کے صدر دروازے سے متصل بریج کےپاس ایک لاوارث نعش پڑی ہوئی ہے۔کئی گھنٹے ہوگئے ہیں لیکن اسے ابھی تک کسی نے اٹھایا نہیں ہے۔
 اطلاع ملتے ہی امین پٹیل وہاں پہنچے۔نعش دیکھنے کے بعد انہوں نے اسپتال کے ذمہ داران سے  اسے اسپتال میں داخل کرنے کی گزارش کی لیکن وہاں سے کوئی مناسب جواب نہیں تو انہوں نےاس کی شکایت سول سرجن سے کی۔ انہوںنے اسپتال میں ایمبولینس دستیاب نہ ہونے کی بات کہہ کر پلڑا جھاڑ لیا۔ اس موقع پرمیڈیکل کالج میں مریضوں کی مدد اور خدمت انجام دینے والے انصاری عبداللطیف بھی  موجود تھے۔ بعد ازاںعبداللطیف اور امین پٹیل کی کوششوں سے  ڈاکٹروں نے پوسٹ مارٹم کی کارروائی کیلئے قدیم سول اسپتال لے جانے کا مشورہ دیا۔امین  پٹیل نے ظفر احمد نامی نوجوان کو فون کرکے ایمبولینس منگوائی۔ان تینوں اور اسپتال کے’ وارڈ بردر‘ کی مدد سے نعش اٹھاکر ایمبولینس میں رکھ کر پوسٹ مارٹم کی کارروائی کیلئے شہر کے قدیم سول اسپتال میں لے گئے۔پوسٹ مارٹم اور پولیس کارروائی کے بعد نعش کو دوبارہ ہیرے میڈیکل کالج لاکر وہاں اسٹوریج میں رکھا گیا جہاں لاوارث لاشیں رکھی جاتی ہیں۔
    اس ضمن میں امین پٹیل نے انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’’ مذکورہ لاوارث لاش ۲۴؍ گھنٹوں  سے زیادہ وقت سے اسپتال کے سامنے باہر پڑی ہوئی تھی۔لاش کے ہاتھ پیر سخت چکے تھے۔ لاوارث لاش کے تئیں ڈاکٹروں اور اسپتال انتظامیہ کی لاپروائی بہت افسوس ناک تھی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ دراصل کوروناوائرس کے خوف کی وجہ سے کوئی بھی یہ خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھا، کوئی ہاتھ لگانا نہیں چاہتا تھا۔یہ پوچھے جانے پر کہ نعش مسلم کی تھی یا غیر مسلم کی  تو پٹیل نے کہا کہ ہم تینوں نے انسانیت کے ناطے اور خدمت خلق کی مناسبت سے یہ کام انجام دیا ہے۔ان تینوںسماجی خدمت گاروںنے ایک لاوارث لاش کو اپنے ہاتھوں سے اٹھاکر ایمبولینس میں  ڈالا اور وہاں سےاسپتال پہنچایا، جس کی ستائش پورے شہر میں ہورہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK