Inquilab Logo

کورونا کی اطلاع چین نے نہیں ، ڈبلیوایچ او کے دفتر نے دی تھی

Updated: July 05, 2020, 9:12 AM IST | Agency | Geneva

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق چین میں واقع اس کے دفتر سے جب وائرل نمونیہ کی خبر آئی تو اس نے چینی حکام سے رابطہ کیا تب انہوں نے کورونا وائرس کی معلومات دی ۔ اس سےقبل ڈبلیو ایچ او کورونا کی اطلاع چین سےا ملنے پرمصر تھا۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس کے معاملات میں مسلسل اضافہ جاری

Health Worker - Pic : PTI
ہیلتھ ورکر ۔ تصویر : پی ٹی آئی

عالمی ادارۂ صحت نے انکشاف کیا ہے کہ  اسےکو رونا وائرس سے متعلق اطلاع سب سے پہلے چین نے نہیں بلکہ وہاں قائم ڈبلیو ایچ او کے دفتر نے دی تھی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ادارے کا یہ موقف رہا ہے کہ اسے وائرس سے متعلق اطلاع چین سے موصول ہوئی تھی لیکن ادارے نے یہ نہیں بتایا تھا کہ اسے یہ اطلاع  چین سےکس نے بھجوائی تھی۔ ادارے کی جانب سے وائرس سے متعلق گزشتہ ہفتے ایک ٹائم لائن جاری کی گئی ہے۔ٹائم لائن میں بتایا گیا ہے کہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۹ء کو ادارے کے چین میں موجود دفتر نے چینی  شہر ووہان کے میونسپل ہیلتھ کمیشن کی ویب سائٹ میں `وائرل نمونیہ سے متعلق معلومات سے ادارے کو آگاہ کیا تھا۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ادارے نے یکم اور ۲؍ جنوری کو چین سے باضابطہ طور پر اس `وائرل نمونیہ سے متعلق معلومات طلب کیں جو۳؍ جنوری کو فراہم کی گئیں ۔
  واضح رہے کہ چین پر امریکہ سمیت کئی ممالک الزام لگاتے آئے ہیں کہ اس نے وائرس سے متعلق دنیا کو آگاہ کرنے میں جان بوجھ کر تاخیر کی جس سے یہ وبا دنیا بھر میں پھیل گئی ۔ امریکی  صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی وائرس سے متعلق معلومات  چھپانے اور ناکافی اقدامات کا جواز پیش کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او کی امداد روک لی تھی۔ اب ڈبلیو ایچ او نے خود یہ بتایا  ہے چین نے از خود  اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ اس کے وہاں کورونا جیسی کوئی بیماری پھیل رہی ہے۔  جیسا کہ اوپر کہا گیا  اسے  اپنے اہلکاروں سے اس کا علم ہوا، اس کے بعد چین  سے استفسار پر اس نے معلومات فراہم کیں،
  اس اطلاع کے بعد چین پر دبائو بڑھ سکتا ہے ، کیونکہ بالواسطہ ڈبلیو ایچ او وہی کہہ رہا ہے جس کا الزام امریکہ اب تک لگا تا آیا ہے۔ فی الحال چین کی جانب سے  ڈبلیو ایچ او کے اس انکشاف پر کوئی رد عمل نہیں آیا ہے۔ امریکہ یا دیگر چین مخالف  ممالک نے بھی اب تک اس پر کوئی بیان نہیں دیا ہے۔  لیکن یہاں سوال یہ بھی ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے یہی بات پہلے کیوں نہیں بتائی تھی؟ 
  کورونا  کے بڑھتے معاملے 
  ادھر دنیا بھر میں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ مجموعی کیس ایک کروڑ ۱۰؍ لاکھ کے قریب پہنچ گئے ہیں جبکہ امریکہ میں گزشتہ ۲۴؍ گھنٹوں کے دوران مزید ۵۷؍ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔امریکہ میں گزشتہ ۹؍ دنوں میں ۷؍ بار  یومیہ کیس کاریکارڈ ٹوٹ چکا ہے جبکہ اس کی ۴۰؍ریاستوں میں کیس بڑھ رہے ہیں۔ امریکی ریاست فلوریڈا میں جمعہ کو مزید ۹؍ ہزار ۴۸۸؍ کیس رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ اس سے ایک روز قبل یہاں ۱۰؍ ہزار کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ ادھر فلوریڈا میں کےآئی سی یو وارڈوں میں صرف ۲۰؍فی صد گنجائش باقی ہے جبکہ ریاست ایریزونا کے  آئی سی یو میں صرف ۹؍ نو فی صد گنجائش باقی ہے۔
 امریکہ کے بعد برازیل میں بھی کورونا کا پھیلاؤ جاری ہے جہاںمتاثرہ افراد کی تعداد ۱۵؍  لاکھ سے اوپر جا چکی ہے۔ایک روز قبل برازیل کے صدر نے ایک قانون کو منظوری دی ہے جس کے تحت پیدل چلنے اور ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والے افراد کیلئے  ماسک  پہننا لازمی قرار دیدیا گیا ہے۔ البتہ اُنہوں نے اسکولوں، گرجا گھروں اور دکانوں میں ماسک کی پابندی کی شق مسترد کر دی ہے۔ واضح رہے کہ برازیل  کے  صدر کو شروع میں کورونا وائرس کو سنجیدہ نہ لینے کے معاملے پر طبی ماہرین کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
 ادھرہندوستان میں بھی کوونا وائرس کا پھیلاؤ جاری ہے۔ ملک میں سنیچرکو مزید ریکارڈ ۲۲؍ ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔اس کے بعد ملک میں مریضوں کی کل تعداد ساڑھے  ۶؍ لاکھ سے اوپر جا پہنچی ہے۔  ہندوستان سے آگے روس ہے جہاں  متاثرین کی تعداد پونے ۷؍ لاکھ تک پہنچ چکی ہے ۔  لیکن ہندوستان میں مریضوں کی تعداد جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ  وہ بہت جلد روس کو اس معاملے میں پیچھے چھوڑ دے گا۔  واضح رہے کہ پڑوسی ملک پاکستان میں بھی  اچانک ہی کورونا کے اثر میںتیزی آئی ہے  جہاں  سنیچر کو کورونا کے ۱۱؍ ہزار سے زائد مریض سامنے آئے ہیں جو یومیہ کیسوںکا ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان میں مجموعی طور پر  سوا ۲؍ لاکھ افراد کورونا کے مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ یہ تعدا د جون کے مہینے میں زیادہ بڑھی ہے۔  مارچ  اور اپریل میں ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی ممالک میں حالات قابو میں تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK