مشترکہ اعلامیہ میں امریکی صدر کی جانب سے عائد ٹیرف کو عالمی معیشت کیلئے نقصاندہ قرار دیا گیا، جبکہ ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملوں کی سخت مذمت کی گئی۔
EPAPER
Updated: July 08, 2025, 12:01 PM IST | Agency | Brasília
مشترکہ اعلامیہ میں امریکی صدر کی جانب سے عائد ٹیرف کو عالمی معیشت کیلئے نقصاندہ قرار دیا گیا، جبکہ ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملوں کی سخت مذمت کی گئی۔
برکس کے سربراہی اجلاس میں مختلف ممالک کے سربراہان نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے بلا امتیاز درآمدی محصولات (ٹیرف) عائد کرنے اور حال ہی میں ایران پر ہوئے اسرائیل۔امریکہ حملے پر کھل کر تنقید کی گئی ہے۔ حالانکہ کسی نے بھی ڈونالڈ ٹرمپ کا نام نہیں لیا۔
یاد رہے کہ ۱۱؍ ترقی پذیر ممالک کے گروپ برکس کا اجلاس ایسے وقت میں ہوا ہے جب ڈونالڈ ٹرمپ نے تمام ممالک کی درآمد پر ٹیرف لگانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی پالیسیوں کے سبب روز بروز حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لئےامریکہ سمیت سبھی کی نظریں برکس اجلاس پر ہیں۔ مذکورہ ۱۱؍ ممالک میں سے برازیل، روس، ہندوستان ، چین اور جنوبی افریقہ ایسے ممالک ہیں جہاں دنیا کی تقریباً نصف آبادی رہائش پذیر ہے، اور یہ ممالک عالمی اقتصادی پیداوار کے ۴۰؍ فیصد حصے کے حامل ہیں۔ حالانکہ برکس گروپ کئی معاملات پر منقسم ہے لیکن امریکی صدر کی غیر متوقع پالیسیوں اور ان کی ادھوری تجارتی جنگوں کے خلاف ایک نقطے پر متحد نظر آیا ہے، اگرچہ انہوں نے براہِ راست امریکی صدر کا نام لینے سے گریز کیا ہے۔
ا جلاس کے مشترکہ بیان کے مطابق برکس کے اراکین نے ’یکطرفہ محصولات کے اقدامات کے اضافے پر شدید تشویش‘ کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ عالمی معیشت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ڈونالڈ ٹرمپ نے اتوار کی شب سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر براہِ راست برکس بلاک پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’جو ملک برکس کی امریکی مخالف پالیسیوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرے گا، اس پر اضا فی ۱۰؍ فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا، اس پالیسی میں کوئی استثنیٰ نہیں ہوگا‘۔
اس سے پہلے برکس نے اپنے رکن ملک ایران کی علامتی حمایت کرتے ہوئے ان جوہری اور دیگر اہداف پر اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے کئے گئے فوجی حملوں کی مذمت کی۔ اپریل میں ڈونالڈ ٹرمپ نے اتحادیوں اور مخالفین کو سخت محصولات کی دھمکی دی تھی، لیکن اسٹاک مارکیٹس میں زبردست مندی کے بعد عارضی ریلیف دے دیا تھا۔انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر شراکت دار ممالک یکم اگست تک معاہدے نہیں کرتے ہیں تو ان پر یکطرفہ محصولات عائد کئے جائیں گے۔ برازیل، ہندوستان اور سعودی عرب جیسے امریکی اتحادیوں کے ساتھ ممکنہ نرمی کے طور پر، سربراہی اجلاس کے اعلامیے میں امریکہ یا اس کے صدر کا براہِ راست ذکر نہیں کیا گیا۔دو دہائی قبل تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کے فورم کے طور پر قائم ہونے والا برکس اب چین کی قیادت میں امریکہ اور مغربی یورپ کی طاقت کا مقابلہ کرنے والا گروپ سمجھا جاتا ہے۔لیکن جب سے اس گروپ میں ایران، سعودی عرب اور دیگر ممالک شامل ہوئے ہیں، یہ غزہ پر حملے سے لے کر امریکہ کی عالمی بالادستی کو چیلنج کرنے جیسے معاملات پر مؤثر اتفاق رائے حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔مثال کے طور پر برکس ممالک نے اسرائیل ۔فلسطین تنازع کے پر امن ۲؍ ریاستی حل کی حمایت کی، حالانکہ ایران کا دیرینہ مؤقف ہے کہ اسرائیل کا وجود ختم ہونا چاہئے کیونکہ اس نے فلسطین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔
یاد رہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی برکس اجلاس پر خاص نظر تھی اور کسی بھی ایسے اقدام پر جو امریکہ کے حالیہ فیصلوں کے خلاف جاتا ہو وہ مزید سخت قدم اٹھانے کی تیاری میں ہیں۔ جیسا کہ خود انہوں نے اعلان کیا ہے ۔ چونکہ برکس میں زیادہ تر ایسے ممالک ہیں جن کے تعلقات امریکہ سے خوشگوار نہیں کہے جا سکتے اس لئے ان کے اقدامات اہم سمجھے جاتے ہیں۔ اگست کے بعد عالمی معیشت پر ڈونالڈ ٹرمپ کے فیصلوں کا اثر ہونا شروع ہوگا۔ جب تمام ممالک ٹرمپ کے فیصلوں سے اتفاق یا اختلاف کا اعلان کر چکے ہوں گے۔