Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکہ: ظہران ممدانی پر ’’نسلی‘‘ مضمون شائع کرنے کے بعد نیویارک ٹائمز کو شدید تنقید کا سامنا

Updated: July 08, 2025, 10:02 PM IST | New York

حیرت انگیز طور پر اس متنازع مضمون کا ممدانی کو فائدہ ہوا جس کی ’نیویارک ٹائمز‘ نے توقع نہیں کی ہوگی۔ انتخابی مہم کے منتظمین کے مطابق، مضمون اور اس پر تنقید کے بعد ممدانی کے عطیات میں اضافہ ہوا ہے۔

Zohran Mamdani. Photo: INN
ظہران ممدانی۔ تصویر: آئی این این

امریکہ کے معروف اخبار نیویارک ٹائمز نے ۳ جولائی کو بظاہر ایک سیاسی مضمون شائع کیا لیکن غروب آفتاب تک وہ تنازع کا مرکز بن چکا تھا جس کا محور اس کا موضوع، نیویارک کے نوجوان ہند نژاد مسلم امیدوار ظہران ممدانی، نہیں بلکہ خود `دی ٹائمز` تھا۔ متنازع مضمون، ۲۰۰۹ء میں کولمبیا یونیورسٹی میں داخلے کیلئے ان کی کالج درخواست پر مرکوز تھا۔ اس وقت ۱۷ سالہ ممدانی نے درخواست فارم میں ”ایشیائی“ اور ”سفید فام یا افریقی امریکی “ کو نشان زد کیا تھا۔ حالانکہ انہیں کولمبیا میں داخلہ نہیں ملا تھا، ’دی ٹائمز‘ نے اس انکشاف کو ممکنہ طور پر اہم قرار دیا اور نوٹ کیا کہ ممدانی آج خود کو ہند نژاد یوگنڈن-امریکی کے طور پر شناخت کرتے ہیں لیکن سیاہ فام کے طور پر نہیں۔ عام طور پر، یہ مضمون خاموشی سے خبروں میں گم ہو سکتا تھا لیکن اس کے اشاعت کے سیاق و سباق نے ایک شدید ردعمل کو جنم دیا ہے جو امریکہ میں سوشل میڈیا پر اب بھی ٹرینڈ کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ڈونالڈ ٹرمپ کو امن کے نوبیل انعام کیلئے نامزد کیا

واضح رہے کہ ۳۳ سالہ ممدانی اس وقت نیویارک شہر کے میئر کیلئے ڈیموکریٹک امیدوار اور کوئینز سے منتخب اسمبلی مین ہیں۔ وہ یوگنڈا میں جنوبی ایشیائی والدین کے ہاں پیدا ہوئے اور ۷ سال کی عمر میں نیویارک منتقل ہو گئے۔ وہ ۲۰۱۸ء میں امریکی شہری بنے۔ ایک مسلمان اور خودساختہ جمہوری سوشلسٹ کے طور پر ممدانی نے شہر کے روایتی سیاسی طاقت کے مراکز کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

نیویارک ٹائمز نے اس مضمون کو ان کے ماضی پر ایک حقائق پر مبنی نظر کے طور پر پیش کیا گیا تھا جو ’’معمول“ کی سیاسی چھان بین کا حصہ تھا لیکن ناقدین نے فوراً نشان دہی کی کہ جس تفصیل پر اس نے توجہ مرکوز کی تھی وہ کولمبیا یونیورسٹی کے داخلوں کے ہیک کئے گئے دستاویزات کے ایک ذخیرے سے حاصل کی گئی تھی۔ یہ دستاویزات ایک گمنام ماخذ نے لیک کرکے ’دی ٹائمز‘ کو بھیجے تھے۔ اشاعت کے ۲۴ گھنٹوں کے اندر، اس ماخذ کی عوامی طور پر شناخت ہو گئی۔ گارڈین نے انکشاف کیا کہ کریمیو، جیسا کہ مضمون میں ان کا حوالہ دیا گیا تھا، اردن لاسکر تھے جو ایک سب اسٹیک مصنف ہیں اور نسلی سوڈو سائنس کا دفاع کرنے اور نسل اور ذہانت کو جوڑنے والے نظریات کو فروغ دینے کیلئے جانے جاتے ہیں۔ لاسکر کی تحریریں اکثر ایسی مطالعات کا حوالہ دیتی ہیں جو آئی کیو میں نسلی درجہ بندی کے حق میں دلائل دیتے ہیں اور انہوں نے خود کو انتہائی دائیں بازو کے آن لائن ایکوسسٹم سے ہم آہنگ کر لیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ کا نیویارک کو ’کمیونسٹ دیوانے‘ ممدانی سے بچانے کا عہد، ممدانی کا جوابی حملہ

ایک ’گھٹیا‘ مضمون

ناقدین نے نیویارک ٹائمز کے اس مضمون کو شائع کرنے کے فیصلے کو نہ صرف اخلاقی طور پر قابل اعتراض بلکہ سیاسی طور پر محرک بھی قرار دیا۔ اخبار کے ادارتی بورڈ، جو اب مقامی انتخابات کی تائید نہیں کرتا، نے پہلے ممدانی کی میئرل دوڑ کے بارے میں ایک سخت ادارتی مضمون جاری کیا تھا جس میں مؤثر طریقے سے رائے دہندگان سے ان کی حمایت نہ کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ ڈیموکریٹک پرائمری سے محض چند ہفتے قبل، متنازع مضمون کی اشاعت کو وسیع پیمانے پر ایک مربوط کوشش کے طور پر تعبیر کیا گیا تاکہ ایک سرکردہ امیدوار کو کمزور کیا جا سکے جس نے اہلِ اقتدار کو خوفزدہ کردیا ہے۔

نیویارک ٹائمز کے اس مضمون کو عوامی شخصیات نے نوٹس کیا اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ امریکی مصنف اور سیاسی تبصرہ نگار کیتھ اولبرمن نے اس مضمون کو ”گھٹیا“ قرار دیا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس اور ریڈٹ پر دیگر نامور میڈیا آوازوں نے ’دی ٹائمز‘ پر ممدانی کو بدنام کرنے کیلئے نسل پرستانہ سوڈو سائنس کے استعمال کا الزام لگایا۔ ”نیویارک ٹائمز بدنام کرتا ہے“ ایکس پر تین دن تک ٹرینڈ کرتا رہا۔

یہ بھی پڑھئے: نیویارک: ہمیں ارب پتیوں کی ضرورت بھی نہیں ہے: ظہران ممدانی

حیرت انگیز طور پر اس مضمون کا ممدانی کو فائدہ ہوا جس کی ’دی ٹائمز‘ نے توقع نہیں کی ہوگی۔ انتخابی مہم کے منتظمین کے مطابق، مضمون اور اس پر تنقید کے بعد ممدانی کو ملنے والے عطیات میں اضافہ ہوا ہے۔ اشاعت کے بعد تین دنوں میں چھوٹی رقوم کے عطیات میں ۲۰ فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ رضاکاروں نے زیادہ شرحوں پر سائن اپ کیا۔ اندرونی پولنگ، جو صحافیوں کے ساتھ شیئر کی گئی، نے نوجوان ووٹروں اور افریقی اور جنوبی ایشیائی تارکین وطن برادریوں میں حمایت میں اضافہ دکھایا۔ مقامی پریس کے ساتھ کئی انٹرویوز میں، رائے دہندگان نے ’دی ٹائمز‘ کے مضمون کو ”خلفشار پھیلانے والا “، ”مایوس کن“، اور ”اس بات کی یاد دہانی کہ کون بیانیے کو کنٹرول کرتا ہے“ قرار دیا۔

ممدانی اور اخبار کا ردعمل

ممدانی نے مضمون پر ردعمل میں کہا کہ میں نے اپنے پس منظر کی مکمل عکاسی کرنے کیلئے متعدد خانوں کو نشان زد کیا۔ اگرچہ یہ خانے محدود ہیں، میں چاہتا تھا کہ میری کالج کی درخواست اس بات کی عکاسی کرے کہ میں کون تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: نیویارک شہر کے امیرترین افراد، ظہران ممدانی کے خلاف متحد، ہنگامی میٹنگ کاانعقاد، منفی تشہیرکا منصوبہ

اس مضمون کا دفاع کرتے ہوئے ’دی ٹائمز‘ میں اسسٹنٹ منیجنگ ایڈیٹر پیٹرک ہیلی نے اصرار کیا کہ یہ مضمون، خبر بننے کے قابل تھا۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ معلومات سچی اور حقائق پر مبنی تھی۔ ممدانی نے خود اس کی تصدیق کی کہ اس کی آزادانہ طور پر تصدیق کی گئی؛ اور یہ (مضمون) عوام کیلئے متعلقہ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK