غیر مسلح ہونا ممکن نہیں، فوج کا انخلاء بھی مبہم، ’جسٹس فار فلسطین‘ نے اسرائیلی قبضہ کو مضبوط کرنے کی سازش قرار دیا، قطرنےکئی نکات پر وضاحت اورگفتگوکی ضرورت سے اتفاق کیا۔
EPAPER
Updated: October 02, 2025, 1:14 PM IST | Agency | Gaza
غیر مسلح ہونا ممکن نہیں، فوج کا انخلاء بھی مبہم، ’جسٹس فار فلسطین‘ نے اسرائیلی قبضہ کو مضبوط کرنے کی سازش قرار دیا، قطرنےکئی نکات پر وضاحت اورگفتگوکی ضرورت سے اتفاق کیا۔
ٹرمپ کے پیش کردہ امن منصوبے کا بھلے ہی مغربی ملکوں کے ساتھ ہی عرب اورمسلم ممالک نے ، حتی کہ فلسطینی اتھاریٹی نے بھی خیرمقدم کیا ہے مگر اس پر شدید تنقیدیں ہورہی ہیں الزام لگایا جارہاہے کہ یہ دراصل فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو مضبوط کرنے کی سازش کا نتیجہ ہے۔ ایک طرف جہاں یہ منصوبہ حماس کو غیر مسلح اورغزہ کو غیر فوجی علاقہ بنانے پر زور دیتا ہے وہیںدوسری طرف اسرائیل کی فوجوں کے انخلاء کا کوئی واضح ٹائم فریم فراہم نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ حماس کیلئے غیر مسلح ہونا ممکن نہیں ہے۔اس کا ماننا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق فلسطین کو قبضہ کے خلاف مزاحمت کا حق حاصل ہے۔
قطر نے بھی غیر واضح نکات پر گفتگو کا مطالبہ کیا
قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے غزہ منصوبے میں کچھ نکات ایسے ہیں جن پر وضاحت اور مذاکرات کی ضرورت ہے۔ ترک نشریاتی ادارے انادولو کی رپورٹ کے مطابق شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی نے دوحہ میں قائم الجزیرہ ٹی وی کو بتایا کہ ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے سے ایک اہم مقصد حاصل ہوتا ہے جو جنگ کا خاتمہ ہے، لیکن اس میں کچھ نکات ہیں جن پر وضاحت اور بات چیت ضروری ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ’’ہم امید کرتے ہیں کہ سب اس منصوبے کو تعمیری انداز میں دیکھیں گے اور جنگ ختم کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ‘‘انہوں نےکہا کہ ’’ جو منصوبہ پیش کیا گیا وہ اصولی نکات پر مبنی ہے، جن پر تفصیلی گفتگو اور ان کے عملی طریقہ کار پر بات ہونا باقی ہے۔ ‘‘
حماس کیلئے منصوبہ کو قبول کرنا مشکل
حماس کے ایک سینئر لیڈر نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا ہے کہ تنظیم غالباً ڈونا لڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کو مسترد کر دے گی کیونکہ یہ صرف اسرائیل کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور فلسطینی عوام کے مفادات کو نظرانداز کرتا ہے۔ بی بی سی کے مطابق مذکورہ لیڈر نے کہا کہ حماس کیلئے ٹرمپ کے منصوبے کی ایک اہم شرط یعنی غیر مسلح ہونا اور ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ قبول کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ حماس نےغزہ میں عالمی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کی تعیناتی کی بھی مخالفت کی ہے، جسے وہ نئے قسم کا قبضہ تصور کرتی ہے۔ غزہ کے تجزیہ کار ایاد القرا کے مطابق حماس کیلئےاسلحہ چھوڑنے کا فیصلہ آسان نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر حماس منصوبہ مسترد کرے تو دنیا اسے امن میں رکاوٹ سمجھے گی اور اگر قبول کرے تو مزاحمت کے خاتمے کو قانونی جواز دے گی۔
’’اسرائیلی قبضہ کو تقویت فراہم کرنے کی سازش‘‘
فلسطین حامی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل سینٹر آف جسٹس فار فلسطین ( آئی سی جے پی) نے ڈونالڈ ٹرمپ کے غزہ سے متعلق امن منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرتےہوئے اسے اسرائیل قبضہ کو تقویت فراہم کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ تنظیم نے کہا ہے کہ غزہ منصوبہ انصاف دے رہا ہے اور نہ ہی احتساب کر رہا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ ٹرمپ کا منصوبہ سطحی، نوآبادیاتی سوچ کا حامل اور فلسطینی خواہشات کو نظر انداز کرنے والا ہے، یہ نہ تو مسائل کو حقیقی طور پر حل کرتا ہے اور نہ ہی فلسطینی عوام کی رائے یا خواہشات کا احترام کرتا ہے۔ تنظیم کے مطابق منصوبہ اسرائیلی قبضے کی بنیادی وجوہات کو نظرانداز کرتا ہے اور اس میں اسرائیلی انخلا کی مبہم شرائط کے نفاذ کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔ آئی سی جے پی نے خبردار کیا کہ امریکی صدر کے منصوبے کو اسرائیل امن کی راہ میں رکاوٹ یا تاخیر کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
مصطفیٰ برغوثی نےنوآبادیاتی منصوبہ قرار دیا
فلسطینی رہنما مصطفیٰ برغوثی نے کہا ہےکہ غزہ کو بین الاقوامی فورس کے سپرد کرنا نو آبادیاتی منصوبہ ہے۔ انہوںنے کہا کہ امریکی صدر کا مکمل جھکاؤ اسرائیل کی جانب ہے، فلسطینی عوام کو آزادانہ جمہوری انتخابات کا حق دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی منصوبے میں فلسطینی ریاست اور قبضے کے خاتمے کا ذکر تک نہیں کیا گیا، اسرائیل سست انخلاکے بہانے جنگ دوبارہ چھیڑ سکتا ہے۔مصطفیٰ برغوثی کا کہنا تھا کہ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا کردار بالکل ناقابلِ قبول ہے، بلیئر کی عراق جنگ میں جھوٹی کہانی اب بھی یاد ہے۔
منصوبہ کے تعلق سے ٹرمپ کا متضاد رویہ
اس منصوبہ کی ایک بڑی رکاوٹ نیتن یاہو کا متضاد موقف بھی ہے۔ اگرچہ وہ منصوبے کی حمایت کر چکے ہیں، لیکن انھوں نے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہےکہ یرغمالیوں کو رہا کردیئے جانے کے باوجود اسرائیلی فوج غزہ کے بیشتر حصوں میں موجود رہے گی۔ یہ بات منصوبے کی اُس شق سے متصادم ہے جس میں اسرائیل کے بتدریج انخلا کا ذکر ہے۔ عبرانی یونیورسٹی کی پروفیسر جایل نتلشیر کے مطابق نیتن یاہو دو زبانیں بول رہے ہیں : ایک عالمی برادری کیلئے، دوسری اپنی دائیں بازو کی پارٹیوں کیلئے۔
غزہ کا انتظام فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہوگا: مصر
اس بیچ مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے واضح کیا ہے کہ مصر کا موقف غزہ میں فوری طور پر جارحیت اور قتل عام کا خاتمہ، شہریوں کا تحفظ اور ان کی سلامتی کی ضمانت پر مبنی ہے۔انھوں نے ’’العربیہ‘‘ سے گفتگو میں بتایا کہ جنگ بندی کے بعد انتظامی بندوبست پر بات چیت جاری ہے اور غزہ کا نظم و نسق بیرونی مداخلت کے بغیر، فلسطینیوں کے اپنے ہاتھ میں ہو گا۔حماس کے مستقبل پر مصری وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ فلسطینی خود کریں گے۔ فی الحال توجہ ایک نگراں کمیٹی کے قیام پر ہے جس میں حماس کو شامل نہیں رکھا جائےگا تاکہ بنیادی خدمات اور استحکام برقرار رہیں۔