بی جے پی رکن پارلیمان کی شر انگیزی پر مہایوتی لیڈران کی جانب سے بھی مذمت، شنی وار واڑہ میںکل مذہبی دعائیہ تقریب کا انعقاد
EPAPER
Updated: October 21, 2025, 11:24 PM IST | Pune
بی جے پی رکن پارلیمان کی شر انگیزی پر مہایوتی لیڈران کی جانب سے بھی مذمت، شنی وار واڑہ میںکل مذہبی دعائیہ تقریب کا انعقاد
پونے میں واقع تاریخی مقام شنی وار واڑہ میں گزشتہ دنوں مبینہ طور پر کچھ مسلم خواتین نے نماز ادا کی جس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا (یا کیا گیا)جس کے بعد بی جے پی کی خاتون رکن پارلیمان میدھا کلکرنی نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور اس مقام پر جہاں ان خواتین نے نماز ادا کی تھی وہاں گئو موتر چھڑکا ۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے گئو موتر چھڑک کر اس جگہ کو پاک کیا ہے۔ مگر ان کے اس اقدام سے ان کی توقع کے برخلاف سوشل میڈیا اور سیاسی حلقوں میں انہیں حمایت سے زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ مہایوتی لیڈران نے بھی میدھا کلکرنی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
یاد رہے کہ پولیس نے میدھا کلکرنی کے اصرار پر نامعلوم خواتین کے خلاف معاملہ درج کیا ہے۔ان خواتین پر تاریخی مقام پر مذہبی رسومات ادا کرنے کا معاملہ درج کیا گیا ہے جبکہ خود کلکرنی نے جب گئو موتر چھڑک کر جب وہاں مذہبی رسومات ادا کی تو ان پر کوئی معاملہ درج نہیں کروایا گیا۔ اس پس منظر میں سوشل میڈیا پر مہاراشٹر کے کئی مسلم سماجی کارکنان نے تو سخت ردعمل ظاہر کیا ہی ہے لیکن پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ سیاسی حلقوں میں بھی میدھا کلکرنی کے اقدام کی مخالفت کی گئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ میدھا کلکرنی کی مخالفت میں مہا وکاس اگھاڑی سے پہلے مہایوتی لیڈران نے بیان دیا۔ سب سے پہلے این سی پی ( اجیت) کی خاتون ترجمان روپالی پاٹل ٹھومبرے نے میڈیا میں بیان دیا کہ پونےکا شنی وار واڑہ میدھا کلکرنی کے پپا( والد) کا نہیں ہے۔ یہاں پر اگر کسی نے نماز ادا کی تو اس میں کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہو گئی جس پر ہنگامہ کیا جائے۔ انہوں نے اس بات پر بھی سوال اٹھایا کہ میدھا کلکرنی کو کس نے یہ اختیار دیا کہ وہ شنی واڑہ میں جا کر گئو موتر کا چھڑکائو کریں؟ ایک روز قبل روپالی نے ہندو، مسلم اور عیسائی سماج کے افراد کے ساتھ شنی وار واڑہ میں ایک دعائیہ تقریب بھی منعقد کی۔
پونے سے تعلق رکھنے والے شیوسینا (شندے) کے لیڈر رویندر دھنگیکر نے بھی میدھا کلکرنی کے اس اقدام پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ ممکن ہے کچھ خواتین نے شنی وار واڑہ میں نماز ادا کی ہو۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ انہوں نے اس جگہ کو نماز کی جگہ بنالی۔ وہ خواتین نماز ادا کرکے وہاں سے چلی گئیں۔ اب اس میں سیاست کرنے یا بلاوجہ تنازع کھڑا کرنے جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ ‘‘ کانگریس کے ترجمان سچن ساونت نے بھی اس معاملے پر سخت تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شنی وار واڑہ ہی میں مستانی کا بھی مکان ہے۔ یہیں ایک درگاہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا یہ پیشوا ہی تھے جنہوں نے چھترپتی شیواجی کا جھنڈا اتار کر شنی وار واڑہ پر انگریزوں کا جھنڈا یونین جیک لہرایا تھا۔ اگر اس مقام پر بیٹھ کر کچھ خواتین نے خدا کا نام لے لیا تو بی جے پی والوں کے پیٹ میں درد کیوں ہو رہا ہے؟ آپ بھی رام کا نام لیجئے آپ کو کس نے روکا ہے؟
اس پورے معاملے میں صرف بی جے پی رکن اسمبلی نتیش رانے نے میدھا کلکرنی کا ساتھ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے’’ کیا مسلمان ہندوئوں کو حاجی علی پر ہنومان چالیسا پڑھنے کی اجازت دیں گے؟‘‘ انہوں نے میدھا کلکرنی کی جانب سے نماز پڑھی گئی جگہ پر ’شدھی کرن‘ کرنے عمل کو درست قرار دیا۔ سوشل میڈیا پر فعال رہنے والے سماجی کارکن پیغمبر شیخ نے سوال اٹھایا ہے کہ ’’فیکٹ چیک میں یہ بات واضح ہوئی ہے کہ نماز پڑھنے کا یہ ویڈیو پرانا ہے۔ دوچار دن پہلے کا نہیں ہے جیسا کہ دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ ابھی یہ بات معلوم نہیں ہوئی ہے کہ جن خواتین نے نماز ادا کی وہ مسلمان ہی تھیں یا کوئی اور تھیں کیونکہ اس میں جس طرح سے وہ نماز ادا کر ہی تھیں مسلمان اس طرح نماز ادا نہیں کی جاتی۔ ‘‘ انہوں نے کہا ’’ ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ویڈیو صرف شنی وار واڑہ میں ہندو مسلم تنازع کھڑا کرنے کیلئے تیار کیا گیا ہے۔ اس معاملے کی جانچ کی جانی چاہئے۔ سوشل میڈیا پر کئی سماجی کارکنان نے اس معاملے پر میدھا کلکرنی کی مذمت کی ہے۔ اسے بلا وجہ کی اشتعال انگیزی قرار دیا ہے۔