Inquilab Logo

متھرا شاہی عید گاہ مسجد کے سروے کے مطالبہ پر فیصلہ محفوظ

Updated: January 12, 2024, 9:43 AM IST | Jilani Khan Aleg | Lucknow

الٰہ آباد ہائی کورٹ کی یک رکنی بنچ میں سماعت کے دوران مسلم فریق نے سروے کی سخت مخالفت کی۔

Mathura`s Shahi Eidgah Mosque, which is falling in the eyes of sectarians. Photo: INN
متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد جو فرقہ پرستوں کی نظروں میں کھٹک رہی ہے۔ تصویر : آئی این این

متھرا میں واقع شاہی عیدگاہ مسجد کے سروے سےمتعلق مقدمہ کی   جمعرات کو الٰہ آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔عدالت عالیہ کی یک رکنی بنچ نے سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے حالانکہ، فیصلہ سنائے جانے کی تاریخ طے نہیں کی گئی ہے  تاہم امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ رواں یا آئندہ ہفتہ تک یہ فیصلہ سنا دیا جائے گا۔مسلم فریق ایسے کسی بھی سروے کے سخت خلاف ہے اور اس نے عدالت میں بھی اس کی سخت مخالفت کی جبکہ ہندو فریق نےجلد از جلد سروے کرائے جانے کی مانگ کی ہے۔
 الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس مینک کمار جین پر مشتمل یک رکنی بنچ نے جمعرات کو متھرا واقع شاہی عیدگاہ مسجد کمپلیکس کے سروے سے متعلق مقدمہ کی شنوائی کی۔دوران سماعت مسلم فریق نے یہ دلیل پیش کی کہ اس سے جڑا ایک معاملہ سپریم کورٹ کے زیرغور ہے، جس پر ۱۶؍جنوری کو سماعت ہونی ہے اس لئے فی الحال عدالت عالیہ اس پر سماعت نہ کرے۔تاہم، فاضل جج نے یہ دلیل ٹھکرا دی اور شنوائی جاری رکھی۔مسلم فریق نے سروے کرائے جانےکی مانگ کی بھی مخالفت کی۔ وہیں، ہندو فریق نے یہ دلائل پیش کئے کہ سروے کروائے بغیر اس کمپلیکس کے مالکانہ حقوق کا فیصلہ ممکن نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سروے سے یہ صاف ہوجائےگا کہ یہ شری کرشن بھگوان کی جائے پیدائش ہے، جہاں مندر بھی تھااور اسے منہدم کرکے مسجد بناد ی گئی ہے۔انہوں نے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں سروے کرانے کی مانگ کی۔ان کے بقول، اس کمیٹی میں دو وکلاء کو بھی شامل کیا جانا چاہئے۔ ہندو فریق نے جلد از جلد ایڈوکیٹ کمشنر کی تقرری کی  بھی مانگ کی اور کہا کہ پورے عمل کی ویڈیوگرافی اور فوٹوگرافی بھی کرائی جانی چاہئے۔
جسٹس مینک کمار جین نے اس عرضی کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا ۔حالانکہ انہوں نے فیصلہ سنائے جانے کی تاریخ نہیں بتائی ہے، تاہم مانا جارہا ہے کہ اسی ہفتہ یا اگلے ہفتہ یہ فیصلہ آجائے گا۔ واضح رہے کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ میں متھرا واقع اس عبادتگاہ سے جڑی کم و بیش ڈیڑھ درجن پٹیشن زیر سماعت ہیں۔ ان میں سے بیشتر ہندو فریق کی جانب سے دائر کی گئی ہیں۔کسی عرضی میں مسلمانوں کی عبادتگاہ میں داخلہ پر روک کی مانگ کی گئی ہے تو کسی عرضی گزار نے ہندوئوں کو پورا کمپلیکس سونپنے کا مطالبہ کیا ہے۔سروے کی مانگ کےلئے بھی کئی عرضیاں داخل کی جا چکی ہیں۔ 
 غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے متھرا کی شاہی عید گاہ کو کرشن جنم بھومی قرار دے کراس کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے والی مفاد عامہ کی درخواست پر غور کرنے سے انکار کردیاتھا۔ عرضی گزار نےالٰہ آباد ہائی کورٹ  میں  دائرایسی ہی عرضی کو مسترد کئے جانے کے بعد سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔جسٹس سنجیو کھنہ اور دیپانکر دتہ پر مشتمل بنچ نےپٹیشن مسترد کرا دیا، جسے ایڈوکیٹ مہک مہیشوری نے دائر کیا تھا۔جسٹس سنجیو کھنہ نے مفاد عامہ کی عرضی کے ذریعہ اس طرح کے معاملہ کو اٹھانے پرسخت رخ اپناتے ہوئے یہ بھی کہا تھاکہ یہ عرضی موجودہ شکل میں قابل سماعت ہی نہیں۔ اگر عرضی دوسری شکل میں پیش کی جاتی ہے تو اس پر غور کیا جاسکتا ہے۔ بنچ نے اس کی بھی وضاحت کی کہ اس کے اس حکم کا عبادتگاہوں کے تحفظ قانون کوچیلنج کرنے پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا۔ مہک مہیشوری کی اس متنازع عرضی کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ سال اکتوبر میں مستر دکیا تھا۔
 حالانکہ،جسٹس کھنہ کی بنچ نے ہی دسمبرمیں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ متھرا کی شاہی عید گاہ کے سروے کے حکم پر روک لگانے سے انکار کردیا تھا۔ اس معاملہ کے مقدمات کو یکطرفہ طور پرہائی کورٹ کے ذریعہ اپنے پاس منتقل کئے جانے کے خلاف مسجد کمیٹی کی عرضی سپریم کورٹ میں ابھی بھی زیر التواء ہے۔جسٹس سنجے کشن کول اور سدھانشو دھولیا کی ڈویژن بنچ نےمسجد کمیٹی کی ایس ایل پی پر سماعت کرتے ہوئے رجسٹرار کو پیشی پر حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔ساتھ ہی، ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے رویہ پر اظہاربرہمی کرتے ہوئےتمام ضروری معلومات اور دستاویزات فراہم کرنے کی ہدایت دی تھی۔ بہر حال تاریخی مساجد کو ہتھیانے کی کوششیں پورے زور و شور سے جاری ہیں اور اسی لئے مختلف عرضیاں عدالتوں میں داخل کی جارہی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK