Updated: September 08, 2025, 6:57 PM IST
| New Delhi
دہلی کی ایک عدالت نے اڈانی انٹرپرائزز کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے بعض صحافیوں کو گوتم اڈانی اور ان کی کمپنی کے خلاف غیر مصدقہ اور ہتک آمیز مواد شائع کرنے سے روک دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ موجودہ ہتک آمیز پوسٹس اور مضامین بھی پانچ دن کے اندر ہٹا دیئے جائیں۔
گوتم اڈانی۔ تصویر: آئی این این۔
دہلی کی ایک عدالت نے سنیچر کو ایک یکطرفہ عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کئی صحافیوں کو گوتم اڈانی کی کمپنی اڈانی انٹرپرائزز لمیٹڈ (AEL) کے خلاف کسی بھی ’’ہتک آمیز مواد‘‘ کی اشاعت سے روک دیا۔ یہ حکم روہنی کورٹ کے سینئر سول جج انج کمار سنگھ نے جاری کیا، جو صحافی پرنجوئے گہا ٹھاکرتا، روی نائر، ابیر داس گپتا، آیاسکنت داس، آیوش جوشی اور دیگر پر لاگو ہوتا ہے۔ عدالت نے اس کے ساتھ یہ بھی ہدایت دی کہ پہلے سے آن لائن گردش کرنے والے ہتک آمیز مواد کو ہٹا دیا جائے۔
عدالت نے کہا:’’جہاں تک مضامین اور پوسٹس غلط، غیر مصدقہ اور بادی النظر میں ہتک آمیز ہیں، مدعا علیہان نمبر ایک تا۱۰؍ کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے متعلقہ مضامین، سوشل میڈیا پوسٹس یا ٹوئٹس سے ایسے مواد کو حذف کریں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو اسے اس حکم کی تاریخ سے پانچ دن کے اندر ہٹا دیا جانا چاہئے۔ ‘‘یہ حکم اس وقت آیا جب اڈانی انٹرپرائزز نے ایک ہتکِ عزت کا مقدمہ دائر کیا، جس میں الزام لگایا گیا کہ بعض صحافیوں، کارکنوں اور تنظیموں نے کمپنی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا، حصص یافتگان کو بھاری مالی نقصان پہنچایا، اور ہندوستان کی عالمی شبیہ اور برانڈ کی ساکھ کو مجروح کیا۔
یہ بھی پڑھئے: پرجول ریونا کو جیل میں لائبریری کلرک کا عہدہ تفویض، یومیہ ۵۲۲؍ روپے اجرت
اپنی درخواست میں اے ای ایل نے الزام لگایا کہ یہ صحافی اور کارکن ’’ ملک مخالف مفادات‘‘ کے ساتھ منسلک ہو گئے ہیں اور مسلسل گروپ کے بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے منصوبوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، جو ہندوستان کی سلامتی کیلئے نہایت اہم ہیں۔ کمپنی نے دلیل دی کہ ان کارروائیوں سے بڑے منصوبے متاثر ہوئے، آسٹریلیا میں اس کی سرگرمیاں رکی رہیں، ترقی کے اوقات کار تاخیر کا شکار ہوئے، بیلنس شیٹ پر دباؤ بڑھا، اور اہم سرمایہ کاری کے منصوبے رکے۔ اے ای ایل نے مزید اشارہ کیا کہ ویب سائٹس جیسے paranjoy.in، adaniwatch.org اور adanifiles.com.au پر ایسی رپورٹس شائع کی گئیں جو بار بار اڈانی گروپ اور اس کے بانی گوتم اڈانی کے خلاف ہتک آمیز مواد پر مبنی تھیں۔ کمپنی نے ہنڈنبرگ رپورٹ کا بھی حوالہ دیا جس نے اس کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچایا کیونکہ اس رپورٹ میں حصص کی قیمت میں ۹۰؍فیصد تک کمی کے امکان اور گروپ کے قرضوں پر خدشات ظاہر کئے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: مشہور صحافی اور ٹیلی گراف کے ایڈیٹر سن کرشن ٹھاکر کا ۶۳؍ سال کی عمر میں انتقال
معاملے کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے قرار دیا کہ اے ایل ایل نے عبوری حکم امتناعی کیلئے بادی النظر میں ایک مقدمہ ثابت کر دیا ہے۔ تاہم، عدالت نے آرٹیکل ۱۹(ا)(اے) کے تحت آزادیِ اظہار کی ضمانت کو بھی پیشِ نظر رکھا اور واضح کیا کہ منصفانہ، مصدقہ اور ٹھوس رپورٹس پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔
عدالت نے کہا:’’اس مرحلے پر مدعا علیہان نمبر ایک تا۹؍ کو منصفانہ، مصدقہ اور مستند رپورٹنگ سے روکنے کے بجائے انصاف کے تقاضوں کے پیش نظر یہی کافی ہوگا کہ مدعا علیہان نمبرایک تا۱۰؍ کو اس وقت تک غیر مصدقہ، غیر مستند اور بادی النظر میں ہتک آمیز رپورٹس شائع کرنے، تقسیم کرنے یا پھیلانے سے روکا جائے جب تک کہ اگلی سماعت نہ ہو۔ ‘‘اڈانی انٹرپرائزز کی جانب سے سینئر ایڈووکیٹ جگدیپ شرما اور ان کے ساتھ وکلا وجے اگروال، گونیت سدھو، وردان جین، مسکان اگروال اور دیپک اگروال پیش ہوئے۔