Inquilab Logo

دہلی فسادات: مبینہ طورپر پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے والے ۲؍ ملزمین بری

Updated: March 13, 2024, 9:54 PM IST | New Delhi

آج دہلی کی ایک عدالت نے دہلی فسادات ۲۰۲۰ء کے دوران پولیس پر حملہ کرنے کے الزام کا سامنا کر رہے دو ملزموں کی دلیل کو جج نے قابل اعتبار گردانہ۔ اور پولیس کے ذریعے پیش کی گئی تھیوری کو شک کے سائے میں گھری قرار دیا۔ ملزمان پولیس کی جانب سے لگائے گئے تمام الزامات سے بری۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

دہلی کی ایک عدالت نے بدھ کو دو ملزمین کو ۲۰۲۰ء کے شمال مشرقی دہلی فسادات کے دوران دو پولیس اہلکاروں کو شدید چوٹ پہنچانے کے الزام سے یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ ان کی شناخت پر شبہ ہے۔ 
ایڈیشنل سیشن جج پلستیہ پرماچل، عابد علی اور شیرو عرف راجہ کے خلاف ایک معاملے کی سماعت کر رہے تھے جن پر ۲۳؍ فروری۲۰۲۰ء کو فرقہ وارانہ فسادات کے دوران مین وجے پارک روڈ پر املاک کو توڑ پھوڑ کرنے اور پتھراؤ کرنے والے فسادی ہجوم کا حصہ ہونے کا الزام تھا۔ 
استغاثہ کے مطابق واقعہ میں ایک انسپکٹر اور ایک ہیڈ کانسٹیبل زخمی ہوا۔ عدالت نے اپنے سامنے موجود شواہد پر غور کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان دو متاثرین یا زخمی (پولیس) اہلکاروں کے ذریعہ ملزمین کی شناخت کے پورے عمل پر شک کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ‘‘ 
جج نے کہا کہ ’’میں دفاع کی دلیل کو واجب محسوس کرتا ہوں کہ ان دونوں گواہوں کا بغیر کسی مقصد کے پولیس اسٹیشن جانا اور دونوں ملزمان کو تفتیشی افسر کے پاس پانا محض اتفاق نہیں ہوسکتا تھا۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ چونکہ ان کی شناخت کے حوالے سے شواہد ’غلطیوں سے پاک‘ نہیں تھے، اس لئے پولیس کے دو گواہوں کی شہادتوں پر بھروسہ کرنا قابل اعتبار نہیں ہے۔ جج نے مزید کہا کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ دونوں ملزمان شک کے فائدہ کے حقدار ہیں لہٰذا ملزمان موجودہ معاملے میں ان پر لگائے گئے تمام الزامات سے بری کئے جاتے ہیں۔ ‘‘ 
واضح رہے کہ بھجن پورہ پولیس اسٹیشن نے ان دونوں کے خلاف مختلف تعزیری دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی، جس میں غیر قانونی طور پر جمع ہونا، رضاکارانہ طور پر ایک سرکاری ملازم کو اس کے فرائض کی ادائیگی سے روکنے کیلئے شدید چوٹ پہنچانا اور ایک سرکاری ملازم پر حملہ یا مجرمانہ طاقت استعمال کرناشامل ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK