• Sat, 15 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

غیرقانونی عمارتوں کے مکینوں کیلئے متبادل گھر کا قانون بنانے کا مطالبہ

Updated: November 15, 2025, 1:16 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai

سماجی رضاکاروں نے حکومت کو تجویز بھیجی۔ پریس کانفرنس میں انتباہ دیا کہ اسے قبول نہ ہونے پر وہ عدالت جائیں گے۔ ایس آر اے اسکیم کی طرز پر بازآباد کاری کو وقت کی ضرورت قرار دیا

Social volunteers showing a copy of the proposal sent to the government at a press conference. Photo: Inqilabad
پریس کانفرنس میں سماجی رضاکار حکومت کو بھیجی گئی تجویز کی کاپی دکھاتے ہوئے۔ تصویر: انقلاب
سماجی رضاکاروں اور صحافیوں پر مشتمل ایک گروپ نے حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ ’سلم ری ہیبیلیٹیشن اتھاریٹی(ایس آر اے) کے تحت جس طرح غیرقانونی جھوپڑا واسیوں کو متبادل مکان فراہم کئے جاتے ہیں ، اسی طرز پر غیرقانونی عمارتوں کے مکینوں کی بازآبادکاری اور انہیں متبادل رہائش دینے کیلئے قانون بنایا جائے۔ 
جمعہ کومراٹھی پترکارسنگھ میں منعقدہ  پریس کانفرنس  میں صحافی ڈاکٹر دانش لامبے، سماجی رضاکار سلیم الوارے، اسماعیل باٹلی والا اور دیگر نے صحافیوں سے خطاب کیا جس میں یہ وضاحت کی گئی کہ عوامی مفاد میں تجویز پیش کی جارہی ہے۔ اس لئے یہاں خطاب کرنے والوں کا تعلق کن تنظیموں یا اداروں سے ہے،  وہ نہیں بتایا جارہا ہے۔ مقررین نے بنیادی طور پر یہ مطالبہ کیا کہ جس طرح غیرقانونی طور پر بنائے گئے جھوپڑوں میں رہنے والوں کو ایس آر اے کے تحت متبادل رہائش دی جاتی ہے، اسی طرز پر غیرقانونی عمارتوں میں بڑی رقم خرچ کرکے گھر خرید کر دھوکہ کھانے والوں کیلئے متبادل مکان دینے کا قانون لایا جائے تاکہ کوئی بھی بے گھر نہ ہو۔ 
دانش لامبے نے کہا کہ معاشی کمزوری کی وجہ سے لوگ سستے مکان لے لیتے ہیں اور ان میں سے بیشتر کو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ عمارت غیرقانونی ہے۔ چونکہ ان کی مالی حالت اچھی نہیں ہوتی اس لئے حکومت ان کیلئے متبادل رہائش گاہ کا بندوبست کرے۔ البتہ اس کام کیلئے ایس آر اے جیسا کوئی نظام قائم کیا جائے اور یہ بھی طے کیا جائے کہ کس سال تک تعمیر کی گئی عمارتوں کے مکینوں کو متبادل جگہ دی جائے گی۔ ایس آر اے کی طرز پر نظام قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان متبادل رہائش گاہوں کی تعمیر وغیرہ کا بوجھ سرکاری خزانہ پر نہ پڑے۔
اسماعیل باٹلی والا نے بتایا کہ غیرقانونی عمارتوں میں مکان لے کر پھنسنے والوں کی تفصیلات معلوم کرنے کیلئے ایک ’فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی‘ تشکیل دی گئی تھی جس نے ممبرا، تھانے اور ممبئی میں لوگوں سے براہِ راست ملاقات کرکے یا فون وغیرہ پر بات چیت کرکے اور ان کے دستاویز دیکھنے کے بعد پتہ لگایا ہے کہ اکثر و بیشتر افراد کو عمارت بنانے والوں نے جھوٹے وعدوں، غلط اور گمراہ کن دستاویز کے ذریعہ عمارت قانونی بتاکر مکان فروخت کیا تھا۔سلیم الوارے نے کہا کہ غیر مجاز عمارتوں کے پیچھے چھپا ہوا انسانی المیہ یہ ہے کہ ان میں مقیم افراد نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ یہ لوگ بینک سے قرض لے کر ماہانہ قسطوں پر پیسے ادا کرتے ہیں، ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن انہیں بلڈر مافیا نے جعلی نقشے، جعلی اجازت ناموں اور گمراہ کن دستاویزات کے ذریعے دھوکا دیا ہے۔ آج وہی خاندان قانونی نوٹس، مقدموں، انہدامی کارروائیوں سے خوفزدہ ہیں اور عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں جبکہ ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ سب سسٹم کے شکار ہیں اور ایسے خاندانوں کی تعداد تقریباً ۲؍ لاکھ ۱۵؍ ہزار سے بھی زیادہ ہے جو مستقل خوف کے سایے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ سسٹم اور سرکاری افسران کا قصور ہے جو غیرقانونی تعمیرات کو بروقت روکنے میں  ناکام ہے اور سزا ان بے قصوروں کو مل رہی ہے۔دانش لامبے نے یہ بھی کہا کہ آئین کے آرٹیکل ۲۱؍ میں دیا گیا زندگی کا حق رہائش کے بغیر مکمل نہیں۔ ان افراد کی بازآبادکاری کے بغیر زبردستی انہیں رہائش گاہوں سے بے دخل کردینا دراصل آئین کی روح کے خلاف ہے۔ اگر فٹ پاتھ  پربسنے والوں کو بازآبادکاری کا حق مل سکتا ہے تو اپنے پیسوں سے گھر خریدنے والے بے گناہ شہریوں کو وہی تحفظ کیوں نہیں مل سکتا؟
مقررین نے بتایا کہ اس تعلق سے قانون بنانے کی تجویز حکومت کو بھیج دی گئی ہے۔ اگر حکومت اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کرتی تو اس تعلق سے عدالت میں مفاد عامہ کی عرضداشت داخل کی جائے گی۔
واضح رہے کہ تقریباً پوری ریاست اور خاص طور پر بڑے شہروں میں غیرقانونی تعمیرات کا مسئلہ سنگین ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK