• Fri, 28 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مختلف مذاہب کی ۴۹۵؍ عبادت گاہو ں کو ریگولر کرنے کا مطالبہ

Updated: November 28, 2025, 4:19 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

ریاستی اقلیتی کمیشن کے رکن نے وزیراعلیٰ کو مکتوب روانہ کیا۔دیگر ریاستی حکومتوں اورہائی کورٹ کی ہدایات کا حوالہ بھی دیا۔ اس فہرست میں۵۴؍ مساجد شامل ہیں۔

The 495 places of worship include temples, mosques, gurdwaras, churches and Buddhist monasteries. Picture: INN
۴۹۵؍ عبادت گاہوں میں مندر ، مسجد ، گردوارہ ، چرچ اور بودھ وہار ہیں۔ تصویر:آئی این این
عروس البلاد میں غیرقانونی قرار دی گئی مندر، مسجد، گردوارہ، چرچ اور بودھ وہار وغیرہ کی مجموعی تعداد ۴۹۵؍ ہے ۔ اس میں ۵۴؍ مساجد ہیں اور سب سے زیادہ مندریں ۳۵۸؍ ہیں، ان سب کو ریگولر کرنے کے لئے اقلیتی کمیشن کے رکن غلام رسول شیخ نے وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس کو۲۳؍ نومبر ۲۰۲۵ء کو ایک مکتوب روانہ کیا ہے۔ یہ عبادت گاہیں کلکٹریا بی ایم سی کی زمین پر ہونےکا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ا ِن کے ٹرسٹیان کووقفے وقفےسے نوٹس جاری کیا جاتا ہے اور ان کو غیرقانونی قرار دے کرمنہدم کردینے کا بھی اندیشہ رہتا ہے۔ اگر کسی صورت انہیں قانونی درجہ دے دیا جائے تو ہمیشہ کے لئے انہدام کا اندیشہ ختم ہوجائے گا۔
وزیراعلیٰ کو روانہ کردہ مکتوب میں غلام رسول شیخ نےلکھاکہ بحیثیت اقلیتی کمیشن کے رکن مجھے اپنی ڈیوٹی کے دوران بی ایم سی یا دیگر متعلقہ حکام کی طرف سے مذہبی ڈھانچوں کے انہدام سے متعلق تنازعات کی شکایات ملتی رہتی ہیںاور مدد کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ممبئی اور ریاست مہاراشٹر میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے کئی مذہبی ڈھانچے یا تو سرکاری اراضی پر یا ذاتی زمین پریا بغیر زمین خریدے اور متعلقہ محکموں کی اجازت کے بغیرتعمیر کئےگئے ہیں۔ جب اس طرح کے ڈھانچوں کے خلاف شکایات کی جاتی ہیں تو متعلقہ محکمے یا معزز عدالتیں، مروجہ اصولوں کے مطابق انہیںمنہدم کرنے کی کارروائی شروع کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے اس طرح کے اقدامات اکثر ریاست بھر میں امن و امان میں خلل ڈالتے ہیں، لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں اور ہماری حکومت کے بارے میں عوام میں منفی تاثر پیدا کرتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں بھی ان حالات کا ناجائز سیاسی فائدہ اٹھاتی ہیں۔اس حوالے سے  ۲۰۱۸ء میں، ممبئی کے ضلع کلکٹرکے ذریعے کرائے گئے سروے کی جانب میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔اس  سروے میں ۴۹۵؍ مذہبی ڈھانچوں کو غیر قانونی قرار دیا گیاتھا ۔ اس کا ڈیٹا متعلقہ حکام کے پاس دستیاب ہے۔ خط میںیہ بھی لکھا گیا کہ میری درخواست یہ ہے کہ جس طرح آپ نے یکم جنوری۲۰۱۱ءکو ایس آر اے اسکیم ۳۳ (۱۰) کے تحت مکینوں کی اہلیت کیلئے کٹ آف تاریخ مقرر کر کے ایک تاریخی فیصلہ کیا تھا، اسی طرح مذہبی ڈھانچوں کو ریگولرائز کرنےکیلئے بھی ضرور غور کریں۔ میرا مشورہ ہے کہ یکم جنوری ۲۰۱۸ء (کلکٹر کے سروے کے مطابق) کو مذہبی ڈھانچے کے لئے اہلیت کی کٹ آف ڈیٹ (تاریخ) کے طورپرتسلیم کیا جائے۔
غلام رسول شیخ نے اپنے مکتوب میں فروری ۲۰۲۰ء میں اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا بھی حوالہ دیا ہے۔ اس میں عدالت نے اتراکھنڈ حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ ایسے غیر قانونی مذہبی ڈھانچوں کو قانونی بنانے کیلئے ایک نئی پالیسی وضع کرے۔ اس لئےمفاد عامہ اورحکومت کی بھلائی کے لئے بھی میری تجویز پر غور کیا جائے اور بالخصوص مہاراشٹر اوربالعموم پورے ملک میں مذہبی ڈھانچوں کےلئے ایک واضح اور یکساں پالیسی متعارف کرانے کا تاریخی فیصلہ کیا جائے۔‘‘
مکتوب روانہ کرنے والے اقلیتی کمیشن کےرکن سے انقلاب کے اس سوال پرکہ آپ کے ذہن میںیہ خیال کیسے آیا تو انہوں نےبتایاکہ’’ مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کے ٹرسٹیان کی جانب سے ان سے درخواست کی گئی کہ وہ اس تعلق سے غور کریںاوراُن کی آواز بن کرحکومت تک ان کا مطالبہ پہنچائیں ۔ ‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ’’ اِس فہرست میںکسی ایک مذہب کا نہیں بلکہ تمام مذاہب کا معاملہ ہے اس لئےفرنویس حکومت مفاد عامہ میں اس پرضرور توجہ دے ۔‘‘ 
غیر قانونی قرار دی گئیں عبادت گاہوں کی تعداد 
مندر                    ۳۵۳
بودھ وہار              ۵۸
مساجد                  ۵۴
گرودوارہ                ۱۴
چرچ                      ۱۶
مجموعی تعداد    ۴۹۵

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK