اے آئی اور ڈیپ فیک کے دور میں عام شہریوں کی ڈجیٹل شناخت کوقانونی تحفظ فراہم کرنے کیلئے اہم اقدام۔
EPAPER
Updated: July 21, 2025, 3:37 PM IST | Inquilab News Network | Copenhagen
اے آئی اور ڈیپ فیک کے دور میں عام شہریوں کی ڈجیٹل شناخت کوقانونی تحفظ فراہم کرنے کیلئے اہم اقدام۔
مصنوعی ذہانت (اے آئی )اور ڈیپ فیک کے اس دور میں لوگوں کی ذاتی معلومات ہی غیر محفوظ نہیں ہے بلکہ ان کےچہرے یا جسم کی تصویر کے غلط استعمال کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔اس سے نمٹنےکیلئے بڑا قدم اٹھاتے ہوئے ڈنمارک کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ ڈیپ فیکس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے کاپی رائٹ قانون میں ترمیم کرے گی تاکہ ہر فرد کو اپنے جسم، چہرے اور آواز پر قانونی حق حاصل ہو۔
برطانوی اخبار ’دی گارجین ‘کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے کہا ہےکہ وہ لوگوں کی ڈیجیٹل شناختوں کو نقل بچانےکیلئے قانونی تحفظ کے نظم کو زیادہ مضبوط بنانا چاہتی ہے۔ اگر ڈنمارک حکومت اس طرح کا کوئی قانون بناتی ہے تویہ یورپ میں اپنی نوعیت کا پہلا قانون ہوگا۔
ڈنمارک کی وزارت ثقافت کے مطابق شہریوں کو ان کی شکل، آواز اور دیگر خصوصیات پر کاپی رائٹ دینے کے معاملہ میں حکومت کو ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی تائید حاصل ہے اس لئے چند مہینوں میں ہی کاپی رائٹ سے متعلق قانون میں مجوزہ ترامیم کو شامل کرکے اس کا سودہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔اس سلسلے میں جو مسودہ قانون تیار کیا گیا ہے، اس میں ڈیپ فیک کی تعریف’’ ایک ایسی ڈیجیٹل نقل کے طور پر کی گئی ہے جو کسی شخص کی شکل و صورت اور آواز سمیت دیگر خصوصیات سے قریب ہو۔‘‘ڈنمارک کے وزیر ثقافت جیکب اینجل شمیت اس ترمیم کے تعلق سے پُرعزم ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پارلیمنٹ میں اس بل کی منطوری سے بہت واضح طو رپر یہ پیغام دیا جاسکے گا کہ ہر فرد کو اپنی شکل اور آواز پر بلا شرکت غیرے حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ڈجیٹل پلیٹ فارم پر انسانوں کی نقل تیار کرکے اسے کسی بھی غلط طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے اور ہم اس کی اجازت قطعی نہیں دینا چاہتے۔‘‘
ڈنمارک حکومت کا یہ اقدام اس لئے اہمیت کا حامل ہے کہ اے آئی (مصنوعی ذہانت) کا دائرہ تیزی سے وسیع ہورہاہے۔کسی بھی شخص کی آواز، تصویر یا ویڈیو کی بالکل حقیقی معلوم ہونےوالی نقل تیار کرنا پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو چکا ہے۔قانون میں ترمیم کے بعد ڈنمارک کے شہریوں کو یہ قانونی حق ہوگا کہ اگر ان کی رضامندی کے بغیر ان کی ڈجیٹل نقل آن لائن شیئر کی جائے تو وہ اسے ہٹوانے کا مطالبہ کر سکیں ۔حکومت نے واضح کیا کہ نیا قانون طنز و مزاح پر لاگو نہیں ہوگا — اس اجازت جوں کی توں باقی رہے گی۔ فی الحال چین ان ممالک میں سر فہرست ہے جنہوں نے ’اے آئی‘ کے خلاف قانون بنایا ہے۔ چینی قانون کے مطابق کسی شخص کا اس کی مرضی کے بغیر ڈیپ فیک ویڈیو یا فوٹو بنانا قابل سزا جرم ہے۔ امریکہ میں پورے ملک کیلئے ایسا کوئی قانون نہیں ہے تاہم اس کی ۱۷؍ ریاستوں کے اپنے اپنے قانون ہیں جو آن لائن نقل اور فرضی پہچان سے سختی سے نمٹتے ہیں۔ برطانیہ اور سوئزر لینڈ جیسے ملک پہلے سے موجود قوانین کے ذریعہ اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ آسٹریلیا اے آئی کے خلاف قانون تیار کررہاہے مگر اب تک اس نے اسے نافذ نہیں کیا ہے۔