دونوں ممالک کے درمیان لڑائی ٹھیک اس وقت شروع ہوئی جب افغانستان کے وزیر خارجہ ہندوستان کے دورے پر تھے، ایسی صورت میں یہ لڑائی کئی سوالات کھڑے کرتی ہے۔
پاک ۔ افغان پر انگریزوں کی کھینچی گئی ’ڈیورنڈ لائن‘۔ تصویر: آئی این این
پہلے دوحہ میں پھر استنبول میںپاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ فریقین میں جنگ بندی کے تعلق سے پیش رفت پر اتفاق کیا گیا لیکن اس تنازع کی جو بنیادی وجہ ہے وہ جوں کی توں ہے۔ پاکستان کا الزام ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے اس کی سرحد کے اندر دہشت گردانہ حملے ہو رہے ہیں۔ اس لئے اسے حق حاصل ہے کہ افغانستان کی سرحد میں گھس کر حملے کرے۔ جبکہ افغانستان کا سوال ہے کہ پاکستان کی سرزمین کے اندر افغانستان کیسے کارروائی کر سکتا ہے؟ جبکہ آپ کی فوجیں سرحد پر تعینات ہیں؟ کیا یہ الزامات اور یہ دلائل کچھ سنے سنے سے نہیں لگتے؟
ہندوستان میں ہونے والے بیشتر دہشت گردانہ حملوں کے بعد پاکستان پر الزام لگاہے کہ اسکی سرحد کے اندر موجود دہشت گرد تنظیموں نے تخریبی کارروائی انجام دی ہے۔ ادھر سے فوراً پاکستان حکومت نے الزام کی تردید کی اور پوچھا کہ آپ کی سرحد کے اندر ہم کیسے کوئی تخربی کارروائی کر سکتے ہیں؟ افغانستان کے ساتھ حالیہ مذاکرات میں بھی اور عوامی سطح پر بھی پاکستانی حکام یہی کہتے رہے کہ’’ افغانستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کی جائے‘ اور کوئی بھی ’گروہ یا دشمن قوت افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال نہ کرے ۔‘‘ کیا ہندوستان بھی ہر مذاکرات میں اور ہر پلیٹ فارم پر پاکستان سے یہی مطالبہ نہیں کرتا رہا ہے؟
میڈیا میں پاک۔ افغان جھڑپوں کی خبریں اس وقت تیز ہوئیں جب افغانستان کے وزیر خارجہ امیراللہ خان متقی ہندوستان کے دورے پر تھے اور ان کا یہاں پرتپاک استقبال کیا جا رہا تھا۔ یعنی ہندوستان اور افغانستان کے درمیان دوستی کا ایک نیا باب وا ہو رہا تھا ۔ پاکستانی حکام نے افغانستان کی سر زمین سے ہونے والی مبینہ دہشت گردانہ کارروائیوںکے تعلق سے یہ الزام بھی لگا یا ہے کہ یہ حملے ہندوستان کی ایما پر ہو رہے ہیں۔ یعنی ان جھڑپوں اور مذاکرات کے درمیان جاری سیاست کا کوئی نہ کوئی تعلق ہندوستان سے ہے ۔ لیکن یہ معاملہ ویسا نہیں ہے جیسا پاکستان بیان کر رہا ہے۔ اس کی کڑیاں ایک طرف چین سے تو دوسری طرف امریکہ سے جڑتی ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ یوں تو روس کے ساتھ دوستی رکھنے کی پاداش میں چین اور ہندوستان کے ساتھ اپنی پر خاش ٹیرف کے ذریعے نکال رہے ہیں لیکن انہیں یہ فکر بھی ستا رہی ہے کہ اگر روس کو وہ یوکرین کا استعمال کرکے شکست نہیں دے سکے تو خطے میں ایک بار پھر روس کا دبدبہ قائم ہو جائے گا۔ اسی کے پیش نظر انہوں نے جنوبی ایشیا میں اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے افغانستان سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ بگرام ایئر بیس اسے واپس کر دے کیونکہ امریکہ کو خطے کی سرگر میوں پر نظر رکھنے کیلئے اس ایئر بیس کی سخت ضرورت ہے۔ افغانستان نے دو ٹوک جواب دیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین پر غیر ملکی فوج کو ہر گز برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر امریکہ دھمکی دینے قبل تاریخ اٹھا کر برطانیہ، روس اور خود اپنا انجام دیکھ لے۔ اس واقعے کے کچھ ہی دنوں بعد امیر اللہ خان متقی ہندوستان کے دورے پر آئے تھے اور اسی دوران پاک ۔ افغان سرحد پر جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہےکہ افغانستان کے وزیر خارجہ کا ہندوستان دورہ جس پر مودی حکومت کے حامی اور مخالفین سبھی حیران تھے وہ چین اور روس کی رضامندی سے ہوا تھا۔ ہر چند کہ افغانستان نے بگرام ایئر بیس امریکہ کے حوالے کرنے سے صاف طور پر منع کر دیا تھا لیکن خدشہ تھا کہ کہیں امریکہ، خستہ حال معیشت والے اس ملک کو دولت کا لالچ دے کر راضی نہ کر لے۔ اسلئے پہلے روس نے اپنے یہاں افغانستان کا باقاعدہ سفارتخانہ کھلوا کر طالبان حکومت کو منظوری دی۔ اسکے بعد ہندوستان نے امیراللہ خان متقی کو اپنے یہاں مدعو کیا۔ مقصد یہ تھا کہ امریکہ کو پیغام پہنچے کہ خطے کے سارے ممالک متحد ہیں ان کی آپس میں کوئی چپقلش یا مخاصمت نہیں ہے۔ ٹھیک اسی وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ماہرین ان جھڑپوں کے تعلق سے کئی سوالات اٹھا رہے ہیں۔
پہلا سوال تو یہی ہے کہ اگر جو نصیحت پاکستان حکومت ہندوستان کو کرتی ہے اس پر خود عمل کیوں نہیں کر رہی ہے کہ اگر آپ کی سرحد میں دہشت گردانہ کارروائی ہو رہی ہے تو آپ اپنا دفاعی نظام درست کریں ، پڑوسی پر الزام دے کر کیا فائدہ؟ اور بغیر کوئی ثبوت پیش کئے پاکستان کو افغانستان پر فوجی حملے کی اجازت کیسے مل گئی؟ دفاعی ماہرین کا ایک عام فارمولہ ہے کہ جہاں بھی دہشت گردی کا نام آئے وہاں کوئی نہ کوئی امریکی مداخلت ضرور ہے۔ اگر پاکستان دہشت گردی کا نام لے کر افغانستان پر حملے کر رہا ہے تو کہیں اسکے پیچھے امریکہ کی شہ تو نہیں ہے۔ کہیں یہ افغانستان کو دوبارہ شورش زدہ بنانے کا کوئی نیا کھیل تو نہیں ہے؟ یاد رہے کہ پاکستان کو لاکھ افغانستان کا دوست کہا جاتا ہو لیکن اس نے خطے میں کیا وہی ہے جو امریکہ کی مرضی ہو۔ روس کے خلاف افغان مجاہدکی مدد، طالبا ن کے خلاف امریکہ کا ساتھ، افغانستان کی بھول بھلیوں میں پھنسی امریکی فوج کو نکالنے کیلئے دوحہ میں مذاکرات کا اہتمام ان سب میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے مگر افغانستان کی خاطر نہیں بلکہ امریکہ کیلئے۔ اس لئے اگر کچھ لوگ یہ الزام لگا رہے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان پر الزام تراشی اور اس کے بعد جھڑپوں کا سلسلہ اس وقت شروع کیا جب امریکہ نے بگرام ایئر بیس نہ دینے پر افغانستان کو نتائج بھگتنے کی دھمکی دی تھی تو ناممکن بات معلوم نہیں ہوتی۔