Inquilab Logo Happiest Places to Work

چنار بک فیسٹیول۲۰۲۵ء کے چوتھے دن اہم موضوعات پر مذاکرے ہوئے

Updated: August 06, 2025, 12:25 PM IST | Agency | Srinagar

قومی اردو کونسل کے زیراہتمام’ڈیجیٹل دنیامیں کتاب کلچر کا فروغ‘ اور قومی اردو کونسل و شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی کے اشتراک سے’کشمیر کی صوفیانہ روایت‘ کے عنوان سے مذاکرے

Students looking at books at the Chinar Book Festival. Photo: PTI
چنار بک فیسٹیول میں طالبات کتابیں دیکھ رہی ہیں۔ تصویر :پی ٹی آئی

نیشنل بک ٹرسٹ، انڈیا اور قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام چنار بک فیسٹیول میں شائقین کتب اور اسکولس وکالجز کے طلبہ بڑے ذوق و شوق سے اس فیسٹیول میں شریک ہورہے ہیں اور اپنی پسند کی کتابیں خریدرہے ہیں۔  اس کے ساتھ ساتھ روزانہ مختلف علمی وثقافتی پروگراموں کا سلسلہ بھی جاری ہے،چنانچہ منگل کو بھی قومی اردو کونسل کے زیراہتمام’ڈیجیٹل دنیامیں کتاب کلچر کا فروغ‘ اور قومی اردو کونسل و شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی کے اشتراک سے’کشمیر کی صوفیانہ روایت‘ کے عنوان سے مذاکرے ہوئے۔
  ڈیجیٹل دنیا میں کتاب کلچر کا فروغ میںپروفیسر شافع قدوائی(ممتاز اردو وانگریزی اسکالر)اور پروفیسر محمد مبین (وائس چانسلر کلسٹر یونیورسٹی) نے شرکت کی۔پروفیسر شافع قدوائی نے کہا کہ کتاب کی حیثیت ایک استاد کی ہے جو ہمیں نہ صرف علم عطا کرتی ہے بلکہ سوچنے، غور کرنے اورسوال کرنے کا سلیقہ بھی سکھاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کتاب پڑھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہربار ایک نیا تجربہ،نئی سوچ اور نیا مفہوم پیدا ہوتاہے،کاغذ کی خوشبو، ورق پلٹنے کی آواز اور ذہنی یکسوئی جوایک کتاب پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے وہ ای بک میں ناپید ہے لیکن موجودہ وقت میں ڈیجیٹل دنیا اور ای کتاب کی بھی اپنی اہمیت ہے کہ اسے کہیں بھی چلتے پھرتے،سفر کرتے اور کسی بھی وقت پڑھا جاسکتاہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا فوکس پڑھنے پر ہونہ کہ غیر ضروری چیزوں پر۔ 
 پروفیسر محمد مبین نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مطالعہ کے بغیر علم میں گہرائی آسکتی ہے اورنہ ہی گیرائی، آج کل طلبہ محنت و مشقت کے بجائے اے آئی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا بہت نقصان ہورہاہے اس سے بچنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ جو چیزیں بغیر محنت کے آتی ہیں ان کی افادیت کی مدت کم ہوتی ہے، اس لئے مطالعے کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا چاہئے۔انہوں نے طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ وہ نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ دیگر اچھی اور معیاری کتابوں کا بھی مطالعہ کریں تاکہ علم میں وسعت پیدا ہواور آپ مختلف موضوعات پر بہتر انداز میں سوچ سکیں۔اس مذاکرے کی نظامت پروفیسر سیدہ افشانہ(نوڈل آفیسرسی بی سی ایس ، کشمیر یونیورسٹی) نے کی۔
 دوسرا پروگرام `کشمیر کی صوفیانہ روایت کے عنوان سے ہوا جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر(ڈاکٹر) بشیر بشر(سابق ڈائریکٹر مرکز نور، کشمیر یونیورسٹی) نے ’صوفی ازم اورکشمیر کی صوفیانہ‘ روایت پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ کشمیر میں رشی روایت اورصوفی روایت بہت قدیم ہیں۔
  انہوں نے شیخ العالم، لل دید اور دیگر صوفیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ ان ہستیوں نے کشمیری سماج کو روحانی بصیرت، اخلاقی تعلیم وغیرہ کا جو درس دیا تھا وہ آج بھی قابل تقلید اورلائق عمل ہے۔ ڈاکٹر غلام نبی حلیم(معروف شاعر و مترجم) نے کہاکہ کشمیر کی روح میں تصوف بسا ہوا ہے اور کشمیری صوفی ازم کا ایک ہی مقصد ہے، وہ ہے بھائی چارہ، یکسانیت اور انسان کو ایک دوسرے کے دکھ درد،خوشی اور غم میں شریک ہونا۔ انہوں نے کہا کہ صوفیانہ وراثت کو برقرار رکھنا اور اس کی تعلیمات کو نئی نسل تک پہنچانا ہماری ذمے داری ہے۔اس مذاکرے کی نظامت ڈاکٹر سجاد حسین وانی (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ لسانیات، کشمیر یونیورسٹی) نے کی۔ ان مذاکروں میں کثیر تعداد میں سامعین شریک ہوئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK