Inquilab Logo

دہلی: مہرولی میں شہید کی گئی مسجد کے مقام پر شب برأت کے موقع پر عبادت کی اجازت نہیں

Updated: February 23, 2024, 9:12 PM IST | New Delhi

حال ہی میں دہلی کے مہرولی علاقے میں ۶۰۰؍ سالہ قدیم مسجد ’’اخونجی‘‘ کو شہید کردیا گیا۔ تاہم، آج دہلی ہائی کورٹ نے اس عرضی کو خارج کردیا جس میں شب برأت کے موقع پر اتوار سے لے کر پیر کی صبح طلوع آفتاب کے ۳۰؍منٹ بعد تک قبرستان اور مسجد کی جگہ نماز ادا کرنے اور اپنے بزرگوں کی قبروں کی زیارت کیلئے آنے والوں کو مسجد اور قبرستان کی جگہ میں بلا روک ٹوک داخلے کی اجازت طلب کی گئی تھی۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کو شہر کے مہرولی علاقے میں حال ہی میں شہید کی گئی ۶۰۰؍ سالہ قدیم مسجد ’مسجد اخونجی‘کے مقام پر شب برأت کےموقع پر نماز ادا کرنے اور قبروں کی زیارت کی اجازت طلب کرنے کی عرضی خارج کر دی ہے۔

۳۰؍ جنوری کو ڈی ڈی اے نے مسجد کےساتھ مدرسہ بحر العلوم اور مختلف قبروں کو شہید کر دیا تھا۔ جسٹس پروشیندرا کمار کورو نے اس عرضی کو خارج کردیا جس میں شب برأت کے موقع پر اتوار سے لے کر پیر کی صبح طلوع آفتاب کے ۳۰؍منٹ بعد تک قبرستان اور مسجد کی جگہ نماز ادا کرنے اور اپنے بزرگوں کی قبروں کی زیارت کیلئے آنے والوں کو مسجد اور قبرستان کی جگہ میں بلا روک ٹوک داخلے کی اجازت طلب کی گئی تھی۔

عدالت نے ۲۰۲۲ء سے زیر التواء دہلی وقف بورڈ کی انتظامیہ کی جانب سے دائر کی گئی عرضی کو یہ کہہ کر خارج کردیا کہ ’’اس مرحلے پر یہ عدالت موجودہ معاملے کے حقائق کے تحت کوئی ہدایت دینے کیلئے مائل نہیں ہے۔ ‘‘

جسٹس کورو نے مشاہدہ کیا کہ ابھی تک زیر بحث جگہ ڈی ڈی اےکے قبضہ میں ہے اور عدالت نے پہلے ہی اہم عرضی کو اپنی تحویل میں لیا ہےجس کی شنوائی ۷؍ مارچ کو ہوگی۔

 عدالت نے کہا کہ ’’زیر بحث عبادت کا تعلق لازمی حکم امتناعی کی نوعیت سے ہے۔ جواب دہندگان نے اپنی اسٹیٹس رپورٹ میں واضح طور پر کہا ہے کہ مسجد پہلے ہی شہید کی جا چکی ہے اور یہ کہ اس عدالت کی جانب سے جمود کا حکم پہلے ہی برقرار رکھا جا رہا ہے۔ ‘‘

دہلی وقف بورڈ کی انتظامیہ کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل شمس خواجہ نے استدلال کیا کہ عجلت میں عرضی داخل کرنے کی وجہ شب برأت ہے جو گناہوں سے بخشش کا موقع ہے جہاں مسلمان رات بھر مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں اور قبروں کی زیارت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسجد ۶۰۰؍ سال قدیم ہے اور ڈی ڈی اے حکام نے غیر آئینی طور پر اسے مسمار کیا ہے۔ تاہم، دہلی وقف بورڈ کی جانب سے پیش ہونے والی کائونسل نے اس عرضی مخالفت کی اور کہا کہ مسجد ۶۰۰؍ سال پرانی نہیں ہے اور نہ ہی وقف کی ملکیت ہے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عرضی خارج کر دی۔

 اس مہینے کے شروع میں عدالت نے ڈی ڈی اے کو مقام کو جوں کا توں برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم، عدالت نے واضح کیا کہ جمود کا حکم فقط خانہ پری ہے۔ یہ حکم ڈی ڈی اے کی جانب سے اس سے ملحق علاقوں پر جاری کارروائی میں کوئی رکاوٹ نہیں بنے گا۔

واضح رہے کہ یہ معاملہ دہلی وقف بورڈ کی منیجنگ کمیٹی کا ہے کہ مسجد و مدرسہ کو ڈھٹائی سے گرا دیا گیا۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسجد کے امام ذاکر حسین اور ان کے اہل خانہ کو بھی ان کی جھوپڑی گرا کر بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK