`پہلگام حملے سے پہلے روزانہ ۱۰؍ سے ۱۲؍ ہزار سیاح باغات کا رخ کرتے تھے لیکن اب یہ تعداد گھٹ کر صرف دو فیصد رہ گئی ہے۔حکومت سے سیاحوں کا اعتماد بحال کرنے کی اپیل۔
EPAPER
Updated: September 29, 2025, 2:43 PM IST | Agency | Srinagar
`پہلگام حملے سے پہلے روزانہ ۱۰؍ سے ۱۲؍ ہزار سیاح باغات کا رخ کرتے تھے لیکن اب یہ تعداد گھٹ کر صرف دو فیصد رہ گئی ہے۔حکومت سے سیاحوں کا اعتماد بحال کرنے کی اپیل۔
وادی کشمیر کے شہرۂ آفاق سیاحتی مقامات کے ساتھ ساتھ تاریخی حیثیت کے حامل مغل باغات اور ڈل جھیل میں بھی پہلگام حملے کے ۵؍ماہ بیت جانے کے بعد بھی سناٹا چھایا ہوا ہے اور ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ ساتھ مقامی سیاح بھی بہت کم نظر آتے ہیں۔
سری نگر میں واقع مشہور مغل باغات نشاط اور شالیمار میں روزانہ ہزاروں سیاح آتے تھے۔ نشاط باغ کے گیٹ پر موجود ٹکٹ کاؤنٹر پر ہر روز اتنی بھیڑ ہوتی تھی کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی تھی مگر آج وہاں اکا دکا مقامی سیاح ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ٹکٹ کاؤنٹر پرمامور ایک سینئر عہدیدار نے یو این آئی کو بتایا:’’ `پہلگام حملے سے پہلے روزانہ ۱۰؍ سے ۱۲؍ ہزار سیاح باغات کا رخ کرتے تھے لیکن اب یہ تعداد گھٹ کر صرف ۲؍ فیصد رہ گئی ہے۔ اس کمی سے ہمیں زبردست نقصان پہنچا ہے۔سنیچر اور اتوار کو مقامی لوگ ہی کبھی کبھار باغات کی سیر کو آتے ہیں لیکن غیر مقامی سیاح تقریباً غائب ہو چکے ہیں۔‘‘
انہوں نے حکومت سے اپیل کی ،’’ وہ فوری قدم اٹھا کر غیر ملکی اور ملکی سیاحوں کا اعتماد بحال کرے، ورنہ سیاحت پر منحصر ہزاروں خاندان فاقہ کشی کا شکار ہو جائیں گے۔
دلکش جھیل ڈل بھی سنسان ہے جو کشمیر کی پہچان سمجھی جاتی ہے۔ پانی پر تیرتے شاندار شکارے جو ہمیشہ سیاحوں سے بھرے رہتے تھے، آج کنارے پر خالی کھڑے ہیں۔ غلام نبی نامی ایک شکارا والے نے افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا:’’ پہلگام حملے سے پہلے اتنا رش ہوتا تھا کہ ہمیں آرام کا وقت بھی نہیں ملتا تھا۔ اب دن بھر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ ہماری ساری روزی روٹی سیاحتی شعبے پر منحصر ہے۔ اگر سرکار نے فوری اقدامات نہیں کئے تو ہمارے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔ ‘‘
نشاط باغ کے مین گیٹ کے نزدیک ٹوپیاں اور دیگر ہینڈی کرافٹ مصنوعات فروخت کرنے والے محمد اقبال بٹ نے یو این آئی بتایا کہ پہلگام حملے کے بعد کاروبار بالکل ختم ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا: ’’ہم صبح سے شام تک دکان پر بیٹھے رہتے ہیں مگر کچھ بھی نہیں بکتا۔ اب ہم اپنے بچوں کی اسکول فیس بھی ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔‘‘ان کا کہنا تھا:’’ `سرکار کے دعوے کاغذی ہیں، زمینی حقیقت یہ ہے کہ غیر مقامی سیاحوں کی تعداد ایک یا دو فیصد سے زیادہ نہیں۔‘‘ ان کے مطابق ہینڈی کرافٹ کے شعبے سے وابستہ کاریگر ذہنی دباؤ اور مایوسی کا شکار ہو گئے ہیں۔ کئی کاریگر اپنے کام چھوڑنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کی محنت کے خریدار موجود نہیں۔ نشاط باغ کے قریب ہی قلفی بیچنے والے نذیر احمد نے اپنی بے بسی بیان کرتے ہوئے کہا: ’’شام کو خالی جیب گھر لوٹنا معمول بن گیا ہے۔‘‘