انڈیا ٹوڈے کے کانکلیو میں مشہور سماجی خدمتگار یوگیندر یادو کا اُن لوگوں کو جواب جو گھس پیٹھیا، گھس پیٹھیا کا شور مچا رہے ہیں
EPAPER
Updated: September 28, 2025, 9:43 AM IST | New Delhi
انڈیا ٹوڈے کے کانکلیو میں مشہور سماجی خدمتگار یوگیندر یادو کا اُن لوگوں کو جواب جو گھس پیٹھیا، گھس پیٹھیا کا شور مچا رہے ہیں
مشہور سماجی خدمتگار یوگیندر یادو نے ’’انڈیا ٹوڈے کانکلیو‘‘ میں بہار کی ایس آئی آر مہم کا موازنہ ۲۰۱۶ء کی نوٹ بندی سے کیا اور اس ضمن میں جو کچھ کہا اس کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی بیمار ہوجائے تو دوا تلاش کرتا ہے، یہاں معاملہ اُلٹا ہے کیونکہ ایک دوا ہے جو بیمار کی تلاش میں ہے اور اگر یہ اندازہ غلط نہیں تو کہا جاسکتا ہے کہ جو دوا تجویز کی گئی ہے وہ بیماری سے بھی بدتر ثابت ہوگی۔ اس موقع پر اُنہوں نے ’’گھس پیٹھئے‘‘ کے سیاسی و انتخابی بیانیہ کی یہ کہتے ہوئے ہوا نکال دی کہ بہار میں کون سی پارٹی بنگلہ دیشی اور روہنگیا کے موضوع کو سب سے زیادہ اُٹھا رہی ہے اس سے آپ واقف ہیں۔ وہ بی جے پی ہے لیکن بی جے پی نے اس کی بنیاد پر کتنے قانونی اعتراضات کئے؟ صفر۔ بقول یوگیندر یادو: ’’بہار میں اب تک غیر ملکی ووٹروںکے ضمن میں جو اعتراضات داخل کئے گئے ہیں اُن کی مجموعی تعداد ۹۸۷؍ ہے۔ اس ریاست کے رائے دہندگان کی مجموعی تعداد ۷؍ کروڑ ۲۴؍ لاکھ ہے۔ کم و بیش سوا ۷؍ کروڑ میں ۹۸۷؍ کے خلاف غیر ملکی ہونے کی شکایت ایسی ہے جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ اب آپ جاننا چاہیں گے کہ ان میں کتنے ہیں جو روہنگیا یا بنگلہ دیشی ہیں جنہیں گھس پیٹھیا کہا جاتا ہے؟‘‘ اس سوال کا جواب خود یوگیندر یادو نے دیا اور کہا کہ صرف ۲۱۵؍، جو مسلم ہیں اور غیر ملکی ہیں۔
واضح رہنا چاہئے کہ ۹۸۷؍ رائے دہندگان کے غیر ملکی ہونے اور ان میں سے ۲۱۵؍ کے مسلم ہونے کا معاملہ یہ ہے کہ اتنے لوگوں کے خلاف الیکشن کمیشن کو شکایت پہنچی ہے۔ اگر جانچ کے بعد طے ہوجائے کہ ہاں اتنے غیر ملکی ہیں تو بات اور ہے مگر ان کی جانچ تو ہوئی نہیں ہے، ان کے خلاف صرف شکایت کی گئی ہے۔ مزید یہ کہ ان کی تعداد پر غور کیا جانا چاہئے کہ بالفرض تمام شکایات درست پائی گئیں تب بھی سوا ۷؍کروڑ میں صرف ۹۸۷؍ (تمام) اور صرف ۲۱۵؍ (مسلم)، یہ اعداد ذہن میں رکھے جانے چاہئیں۔
یوگیندر یادو نے اعتراف کیا کہ ووٹر لسٹ پر نظر ثانی ہونی چاہئے مگر جس انداز میں ایس آئی آر کو لایا گیا ہے اُس کی مخالفت ضروری ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس مہم کےذریعہ ووٹنگ کے حق کے تعین کا طریقہ ہی بدلا جارہا ہے۔ ایس آئی آر پر اُنہوں نے تین بنیادوں پر شدید اختلاف کیا: (۱) ووٹر لسٹ بنانے کی ذمہ داری جو سرکار کی ہے، اُسے ووٹر کے سر ڈالا جارہا ہے (۲) تمام رائے دہندگان کو دستاویزات جمع کرنے کیلئے کہا گیا، اس طرح یہ مانا گیا ہے کہ سرکار کو یہ پتہ نہیں کہ وہ ملک کا شہری ہے یا نہیں ہے، اور (۳) وہ بارہ دستاویز جنہیں الیکشن کمیشن پہلے تسلیم کرتا تھا اب اُن کی تعداد گیارہ کردی گئی ہے۔ بہرکیف یوگیندر یادو نے جس طرح گھس پیٹھئے والے معاملے پر اعدادوشمار کے ذریعہ روشنی ڈالی وہ چونکانے والا ہے۔
یہ کانکلیو جمعہ کو ممبئی میں منعقد کیا گیا تھا جس میں یوگیندر یادو کے ساتھ پینل میں مشہور وکیل اشونی اُپادھیائے اور سابق چیف الیکشن کمشنر او پی راوت بھی شامل تھے۔ اشونی اپادھیائے نے ایس آئی آر کی حمایت کی اور کہا کہ یہ عمل پورے ملک یعنی ہر ریاست کیلئے ضروری ہے اور اسے ہر پانچ سال کے بعد نافذ کیا جانا چاہئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کوئی بھی شخص ہندوستان میں رائے دہی کر سکتا ہے، اس کیلئے تین شرطیں ہیں۔ اول یہ کہ وہ ہندوستان کا شہری ہو، دوئم ۱۸؍ سال کی عمر مکمل کرچکا ہو اور سوئم یہ کہ عرضی گزار جس علاقے کی انتخابی فہرست میں اپنا نام جڑوانا چاہتا ہو ، اُس کی اُسی علاقے میں رہائش ہو۔
اشونی اپادھیائے نے انتخابی فہرست میں نام داخل کروانے کیلئے آدھار کے قبول کئے جانے کی مخالفت کی اور کہا کہ آدھار پر صاف لکھا ہوتا ہے کہ وہ نہ تو شہریت کا ثبوت ہے نہ ہی رہائش اور عمر کا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کو، کہ آدھار کو قبول کیا جائے، عبوری فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ جب ۷؍ اکتوبر کو حتمی فیصلہ سنایا جائیگا تب آدھار کو لسٹ سے باہر کردیا جائیگا۔
کانکلیو میں شریک سابق چیف الیکشن کمشنر او پی راوت نے شہریت کے معاملے میں کہا کہ عام طور پر کون شہری ہے اور کون نہیں اس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن عوام پر نہیں ڈالتا بلکہ کمیشن کی مشنری خود اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ووٹ دینے کے اہل تمام لوگوں کا نام لسٹ میں آجائے۔