• Tue, 14 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سعودی عرب میں ۱۲؍ ہزار سال قبل انسانی آبادی کےثبوت

Updated: October 02, 2025, 1:18 PM IST | Agency | Riyadh

ماہرین آثار قدیمہ نے ایسی چٹانیں دریافت کیں جن پر اونٹوں کے نقوش بنے ہوئے ہیں۔

Ancient rock carvings found in Saudi Arabia. Photo: INN
سعودی عرب کی قدیم چٹانوں پر ملنےوالے نقوش۔ تصویر: آئی این این

 بین الاقوامی محققین کی ایک ٹیم نے  سعودی عرب میں  ۱۲؍ ہزار سال قبل انسانو ں کے آباد ہونے کے ثبوت دریافت کئے ہیں۔انہیں جبل ارنان، جبل ملیحہ اور جبل مصمّی  کے مقامات پر ایسی چٹانیں ملی ہیں جن پر  اونٹوں  کے نقوش بنے ہوئے ہیں جو اس بات کا مظہر ہیں کہ جزیرہ نماعرب اس  وقت بھی آباد تھا۔ یہ تحقیق منگل کو’’نیچر کمیونیکیشن‘‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔اس کے مطابق یہ نقش و نگار ممکنہ طور پر ان عارضی جھیلوں کی نشاندہی کیلئے بنائے گئے تھے جو کچھ وقت کیلئےزندگی کو سہارا دیتی تھیں۔
  سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ آخری برفانی دور کے عروج جو  تقریباً۲۵؍ ہزار سے ۲۰؍ ہزار سال قبل تھاکے دوران جزیرہ نما عرب مزید خشک ہو گیا، جس کی وجہ سے انسان اور جانور وہاں سے نکل گئے۔ تاہم ۲۰۲۲ء میں سعودی عرب کےصحراء النفود میں دریافت ہونے والی اونٹوں کی قدرتی جسامت کی نقاشی نے اشارہ دیا کہ انسان دوبارہ واپس آئے لیکن ان کی درست تاریخ اب تک غیر یقینی تھی۔ فرانسیسی قومی تحقیقاتی ادارے ’سی این آر ایس‘ سے تعلق رکھنے والے ماہرِ آثارِ قدیمہ گیلاؤم  شارلوکس جو اس تحقیق میں شامل نہیں تھے، کے مطابق یہ دریافتیں اہم ہیں کیونکہ  چٹانوں پر کندہ  اونٹوں کی یہ تصاویر کی تاریخ کو کئی ہزار سال پیچھے لے جاتی ہیں۔
 یہ نقوش جبل ارنان، جبل ملیحہ اور جبل مصمّی کے مقامات پر ملے ہیں۔ ان میں اونٹ، جنگلی بکرے، جنگلی گدھے، ہرن اور  بیل کی شبیہ شامل ہیں۔ بعض تصویریں تین میٹر لمبی اور دو میٹر اونچی ہیں۔ یہ تصاویر سادہ پتھریلے اوزاروں کی مدد سے بڑی نفاست کے ساتھ تراشی گئی تھیں، جو اس دور کے لوگوں کی فنکارانہ مہارت اور اجتماعی محنت کو ظاہر کرتی ہیں۔
 ماہرین کے مطابق یہ نقوش محض جمالیاتی اظہار نہیں تھے بلکہ ان کا مقصد خانہ بدوش قبائل کیلئے پانی کے ذرائع کی نشاندہی کرنا تھا۔ صحرائی خطے میں یہ نشانات پانی کی کمی کے وقت انسانوں اور جانوروں کو زندگی کے وسائل تک پہنچنے میں رہنمائی فراہم کرتے  رہے ہوںگے۔ ارضیاتی شواہد بتاتے ہیں کہ اُس زمانے میں عرب کا یہ خطہ آج کی طرح خشک نہیں تھا بلکہ یہاں موسمی جھیلیں موجود تھیں۔فانی دور کے بعد یہ جھیلیں انسانی بستیوں کے قیام اور دوبارہ آبادکاری میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK