یورپی یونین کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کافیصلہ۔فرانس، برطانیہ اور کنیڈا نے جلد ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ لندن نے آزادانہ تجارتی معاہدہ پر بات چیت روک دی۔ اسپین کی پارلیمنٹ میں اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت پر پابندی کی قرارداد منظور۔ امریکی سینیٹ کمیٹی نے نسل کشی روکنے کا مطالبہ کیا۔
لندن:۱۰؍ڈاؤننگ اسٹریٹ پر سرکرہ سماجی کارکنان غزہ جنگ کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این
غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف تل ابیب پر عالمی دباؤ میں اچانک غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی سختی کے بعد یورپی یونین نے بھی دباؤ بڑھاتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی دھمکی دی ہے جبکہ برطانیہ نے اس سے آزادانہ تجارت کے معاہدہ کیلئے جاری بات چیت کو بند کردیا ہے۔اس کے ساتھ ہی فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا کہ فرانس، برطانیہ اور کنیڈا جلد ہی فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کریں گے۔ اسپین نے بھی صہیونی ریاست پر دباؤ بڑھانے کیلئے میڈرڈ گروپ کی میٹنگ طلب کرلی ہے۔
یورپی یونین کا تعلقات پر نظر ثانی کافیصلہ
یورپی یونین نے اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں جاری جارحیت پر تل ابیب سے تعلقات پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے۔ بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں یورپی سفارتی اجلاس ہوا جس میں یورپی یونین نے اسرائیل سے تعلقات پر نظرثانی کا فیصلہ کیا۔ اسرائیل اور یورپی یونین کے درمیان ۴۵؍ ارب یورو سالانہ سے زیادہ کی تجارت ہوتی ہے۔ اسرائیل سے تجارتی اورسفارتی معاہدوں پر نظرثانی کی قرار داد نیدرلینڈ کے وزیرخارجہ نے پیش کی تھی جس کی حمایت ۱۷؍یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے کی۔ نیدر لینڈز کا کہنا ہے کہ غزہ میں انسانی امداد کی ناکہ بندی بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جبکہ یورپی یونین عہدیدار کاجا کالاس نے کہا کہ اسرائیل کو فوری طور پر غزہ کیلئے امدادی رسد جاری کرنی چاہیے۔
مغربی کنارہ پر نئی یہودی بستیوں کی مخالفت
یورپی میڈیا کے مطابق مغربی کنارہ میں پرتشدد آبادکاروں پر پابندیوں کی حمایت میں بھی قرارداد پیش ہوئی جس کی ۲۶؍ یورپی ممالک نے تائید کی تاہم ہنگری نے اسے ویٹو کیا۔ سویڈن کے وزیر خارجہ نے اسرائیلی وزیروں پر بھی پابندیوں کی تجویز پیش کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
برطانیہ نے مذاکرات معطل کردیئے
اُدھر برطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ آزادانہ تجارتی معاہدہ کیلئے جاری مذاکرات معطل کر دیئےہیں۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے غزہ کی ناکا بندی کو’’اخلاقی طور پر غلط‘‘ اور ’’ نا معقول‘‘ قرار دیا اور پارلیمنٹ کو بتایا کہ اسرائیلی حکومت کے قابل مذمت اقدامات اور بیان بازی ملک کو اپنے دوستوں اور شراکت داروں سے الگ تھلگ کر رہی ہے۔
برطانیہ کی طرف سے آزادانہ تجارتی معاہدے کی بات چیت معطل کرنے کے اعلان پر اسرائیلی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی مخالفت میں برطانیہ اپنی معیشت کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے تو یہ اس کی مرضی ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ بیرونی دباؤ اسرائیل کو مقصد کے حصول سے نہیں روک سکتا۔
اسرائیل کو اسلحے کی فروخت پر پابندی
اسپین کی پارلیمنٹ نے اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت پر پابندی عائد کرنے کیلئے قرارداد منظور کرلی ہے۔ہسپانوی پارلیمنٹ میں بائیں بازو اور قوم پرست جماعتوں کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کے حق ۱۷۱؍ اراکین نے ووٹ دیئے جبکہ اراکین کی کل تعداد ۱۷۶؍ ہے۔ ہسپانوی قانون سازوں نے بھی اس قرارداد کو سراہتے ہوئے ہسپانوی حکومت پر زور دیا کہ اسرائیل کو اس طرح کے کسی بھی مواد کی فروخت نہ کی جائے جو اسرائیلی فوج کو مضبوط کر سکے۔اس قرارداد میں اسپین کے غیر ملکی تجارت کے قانون میں اصلاحات کی سفارش بھی کی گئی ہے تاکہ اسرائیل جیسی کسی بھی ریاست کے ساتھ فوجی معاہدوں پر پابندی لگائی جا سکے۔
امریکی سینیٹ کمیٹی کانسل کشی روکنے کا مطالبہ
امریکہ کی سینیٹ کمیٹی میں غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ مارکو روبیو سے امریکی سینیٹ کمیٹی میں پیشی کے دوران غزہ میں نسل کشی روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اسی دوران ’’نو ڈالر ٹو اسرائیل‘‘ کی ٹی شرٹ پہنے شخص نے وزیر خارجہ کے بیان کے دوران اٹھ کر نسل کُشی بند کرو کا مطالبہ کیا جس پر سیکوریٹی نے احتجاج کرنے والے شخص کو باہر نکال دیا۔
فلسطینی ریاست کو جلد تسلیم کرنے کا اعلان
فرانسیسی وزیراعظم فرانسوا بایرو نے اعلان کیا ہے کہ فرانس، برطانیہ اورکنیڈا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں اور یہ اقدام اب نہیں رکے گا۔انہوں نے فرانسیسی قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’تاریخ میں پہلی مرتبہ تین بڑی طاقتوں برطانیہ، فرانس اور کنیڈا نے مل کر غزہ میں جاری حالات کی مخالفت کا فیصلہ کیا ہے اور وہ فلسطینی ریاست کو اجتماعی طور پر تسلیم کریں گے۔‘‘ انہوں نے اسرائیل کی مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ اقدام جو شروع ہو چکا ہے، اب رکے گا نہیں بلکہ مکمل کیا جائے گا۔‘‘