Updated: February 16, 2024, 5:00 PM IST
| New Delhi
سمیوکت کسان مورچا کی جانب سے ملک گیر بھارت بند کی وجہ سے عام زندگی متاثر ہو گئی ہے۔ بھارت بند میں کئی اہم کسان تنظیموں نے حصہ لیا۔ بھارت بند کا آغاز صبح ۶؍ بجے سے ہوا جو شام میں ۴؍ بجے تک جاری رہا۔ کسانوں نے ۱۲؍ بجے سے ۴؍ بجے تک ملک کی اہم سڑکوں پر چکہ جام کیا جس کے سبب پنجاب میں، متعدد ریاستی اور قومی سڑکیں ۴؍ گھنٹے کیلئے بند رہیں۔ پنجاب میں نجی اسکولوں نے احتجاج کو مد نظر رکھتے ہوئے چھٹی کا اعلان کیا تھا۔
شمبھوسرحد پر کسان مظاہرین ۔ تصویر: پی ٹی آئی
سمیوکت کسان مورچا، جو کسانوں کے دہلی چلو آندولن کی قیادت کر رہا ہے ،کی جانب سے آج ملک گیر بھارت بند رہا۔ سمیوکت کسان مورچا نے بھارت بند کیلئے کسانوں کی اب تک نہ حل کی گئی شکایات کا حوالہ دیا تھا جن میں فصلوں کیلئے اقل ترین قیمت سب سے اہم ہے۔اس احتجاج میں اہم کسانوں کی تنظیموں جیسے بھارت کسان یونین، بھارتیہ کسان یونین(داکندہ)، بھارتیہ کسان یونین(لکھوال)، بھارتیہ کسان یونین( قادیان)اور کیرتی کسان یونین نے حصہ لیا۔ علاوہ ازیں گرامین بھارت بند کا آغاز صبح ۶؍ بجے ہوا جو ۴؍ بجے تک جاری رہا۔ کسانوں نے وسیع پیمانے پر ۱۲؍ بجے سے لے کر ۴؍ بجے تک ملک کی اہم سڑکوں پر ’’چکہ جام‘‘ کیا۔ پنجاب میں، بہت سی ریاستی اور قومی سڑکیں ۴؍ گھنٹے کیلئے بند رہیں۔ سنگرور، بھٹنڈہ، ضلع مانسہ اور برنالہ میں چکہ جام وقت سے پہلے شروع ہو گیا تھا۔ڈیموکریٹیک ٹیچرس فرنٹ نے ریاست میں بورڈ امتحانات ملتوی کرنے کامطالبہ کیا تھا۔
اس ضمن میں سمیوکت کسان مورچا کے نیشنل کارڈینیٹر کمیٹی کے رکن رامندر سنگھ پٹیالہ نے کہا کہ ہم آج صبح سے شام ۴؍ بجے تک چکہ جام کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔کسانوں نے اپنے اپنے گاؤں میں اورملک کی تمام ریاستوں میں نیشنل ہائی وے پر احتجاج کیا۔ ہم نے کسانوں سے کہا تھا کہ وہ اس دن دودھ یا سبزیاں فراہم نہ کریں۔ سڑکوں پر سرکاری بسیں اور ٹرکیں بھی نہیں چلائی جائیں گئیں۔یہ ایک طرح کا بھارت بند تھا۔ بھارت بند کو مد نظر رکھتے ہوئے کسانوں کی حمایت میں متعدد ثقافتی سرگرمیاں جیسے اسکٹ، اسٹریٹ پلے، نظم خوانی اور نغموں کے پروگراموں کا انعقاد کیا گیا جس کے ذریعے کسانوں کی جدوجہد کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔تاہم، بھارت بند میں تمام سیکٹرز شامل نہیں ہوئے۔

کسانوں کی حمایت میں احتجاج کا منظر۔ تصویر: پی ٹی آئی
دی کانفیڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرز(سی اے آئی ٹی ) نے نشاندہی کی کہ متعدد مارکیٹ کھلے رہے جبکہ صرف جن کاروباروں نے شٹ ڈاؤن میں حصہ لیا ہےوہی بند رہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت بند میں دہلی اور ملک کے تمام تجارت کاروں نے حصہ نہیں لیا تھا۔احتجاج کے ذریعے حل تلاش کرنا مکمل طور پر ممکن نہیں ہے اس لئے تجارت کاروں نے اس بند سے خود کو علاحدہ رکھنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
سی اے آئی ٹی کے جنرل سیکریٹری پروین کھنڈیل وال نے احتجاج کے بجائے گفتگو کے ذریعے حل تلاش کرنے پر زور دیا ہے ۔ ان کے مطابق کسانوں کے مسائل حل کرنے کیلئے مذاکرات سب سے زیادہ ضروری ہیں۔ اس احتجاج کو مد نظر رکھتے ہوئے پنجاب میں نجی اسکولوں نے کل چھٹی کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ ڈیموکریٹیک ٹیچرس فرنٹ نے امتحانات کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ڈاکٹر درشن پال، جو ایس کے ایم کے نمائندہ ہیں، نے احتجاج کے گھنٹوں میں تمام گاؤں بند رکھنے، زراعتی اور دیہاتی سرگرمیوں کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اہم اشیاء کی خرید اور فراہمی روک دی گئی جبکہ گاؤں کی دکانوں، گرین مارکیٹس اور حکومتی دفاتر کو بند رکھنے کی اپیل کی گئی تھی۔تاہم، ایمرجنسی خدمات شٹ ڈاؤن سے مستشنیٰ تھے۔
خیال رہے کہ کسانوں نے دہلی چلو آندولن کا آغاز منگل سے کیا تھا۔ اس آندولن کی قیادت سمیوکت کسان مورچا کر رہا ہے جبکہ اس میں ۲۰۰؍ سے زائد کسان تنظیموں نے حصہ لیا ہے۔ واضح رہے کہ کسانوں کے احتجاج کا اعلان کرنے کے بعد حکومت نے انہیں دہلی کی سرحد میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے تمام انتظامات کر لئے تھے۔ احتجاج کے پہلے دن کسان مظاہرین اور پولیس کے درمیان اس وقت تصادم ہوا تھا جب کسانوں نے ہریانہ کے قریب شمبھو سرحد پر حکومت کی جانب سے لگائے گئے بیریکیڈس توڑنے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں پولیس نے ان پر آنسو گیس کے گولے داغے تھے۔کسانوں نے پولیس کی کارروائی کیلئےحکومت کو ذمہ دارٹھہرایا تھا۔ کسان یہ احتجاج اس لئے کر رہےہیں تا کہ حکومت پر اپنے مطالبات منوانے کا دباؤ ڈال سکیں۔ان مطالبات میں فصلوں کیلئے اقل ترین قیمت سب سے اہم ہے۔
