Inquilab Logo

اسرائیل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیلئے اسلحہ فراہم کرنا امریکی قانون کے خلاف ہے: اینیل شیلین

Updated: March 30, 2024, 3:08 PM IST | Washington

امریکی محکمہ خارجہ کی سابق اہلکار اینیل شیلین نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے موضوع پر ڈیموکریسی ناؤ کے ساتھ انٹرویو کے دوران کہا کہ میں ایسے ادارے کے ساتھ کام نہیں کرسکتی جو اس طرح کے جرائم کو فروغ دے رہا ہے۔ یہ امریکی قانون کےخلاف ہے کہ اسرائیل غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرے اور امریکہ اسے اسلحہ فراہم کرے۔

Shailene during the interview. Image: X
شیلین انٹرویو کے دوران۔ تصویر: ایکس

اینیل شیلین،جو امریکی محکمہ خارجہ کی سابق اہلکار ہیںاور انہوں نے حال ہی میں غزہ میں اسرائیلی جنگ میں بائیڈن انتظامیہ کے تعاون کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دیا ہے، سے ڈیموکریسی ناؤ پر جب ایمی گوڈ مین نے غزہ اور اسرائیل جنگ کے تعلق سے سوال پوچھے تو ان کے جسم میں ارتعاش واضح طور پر نظر آرہا تھا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر تکلیف دہ ایرون بشیل کے پوسٹ کے حوالے سے، جو امریکی ایئر فورس کے نوجوان آفیسر تھےاور جنہوں نے فلسطین کی حمایت میں واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانہ کے سامنے خود کو آگ لگا لی تھی، گوڈمین نے شیلین سے اس کے اثرات سے متعلق سوال کیا۔ اس پوسٹ کو دیکھ کرشیلین خوفزدہ ہو گئی تھیں جو اَب بھی ان کے ذہن سے نہیں نکل سکا ہے۔

شیلین نے جذباتی انداز میں جواب دیا کہ ’’اگر مستقبل میں میری بیٹی نے مجھ سے سوال کیا کہ ایسے حالات میں مَیں نے کیا کیا تھا؟تو میں اپنی بیٹی سے کہہ سکوں گی کہ میں خاموش نہیں تھی۔ میرے خیال میں ’’لیہے‘‘ قانون کے مقابلے میں امریکی قانون یہاں بالکل واضح ہے۔‘‘انہوں نے مزیدکہا کہ جب اسرائیل بڑے پیمانے پر قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو امریکی قانون کے مطابق امریکہ کو چاہئے کہ وہ اسے مزید اسلحہ فراہم نہ کرے۔ وہ حکومت جو امریکہ کی جانب سے انسانی امداد کی رسائی کو روک رہی ہے اسے مزیدفوجی امداد فراہم نہیں کی جانی چاہئے۔ یہاں ان قوانین کی پاسداری نہیں کی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ کی اسرائیل کو ’خاموشی‘ سے جنگی لوازمات بھیجنے کی منظوری: رپورٹ

خیال رہے کہ شیلین کا استعفیٰ عالمی برادری کی توجہ کا مرکز بنا تھا۔ جمعرات کو سی این این کے ایک مضمون میں انہوں نےلکھا تھا کہ گزشتہ ایک سال سے میں ایسے آفس میں کام کر رہی تھی جو مشرقی وسطیٰ میں انسانی حقوق کے فروغ پر یقین رکھتا تھا۔تاہم، ایسی حکومت کے نمائندہ کے طور پر جو براہ راست اس نسل کشی میں شامل ہے اور جسے بین الاقوامی عدالت انصاف نے ممکنہ طور پر غزہ میں نسل کشی قرار دیا ہے، وہاں کام تقریباً ناممکن تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں ایسے ادارے میں کام نہیں کر سکتی تھی جو اس طرح کے جرائم کو فروغ دے رہا تھااس لئے میں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔شیلین نے بتایا کہ انہیں لگتا تھا کہ ان کے استعفیٰ دینے کا اثر بائیڈن انتظامیہ پر پڑے گا اور اس کا کچھ اثر دیکھنے کو ملے گا۔ جب شیلین کے استعفیٰ کے تعلق سے سوال کیا گیا تو محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ محکمہ خارجہ کے تمام حکام کے اسرائیل کی غزہ میں جارحیت کے تعلقسے خیالات مختلف ہیں۔
شیلین نے ڈیموکریسی ناؤ سے کہا کہ محکمہ خارجہ میں متعدد افراد غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے سخت خلاف ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ آخر میں سب سمجھ جائیں گے کہ امریکہ کا اسرائیل کو مدد فراہم کرنا ایک خطرناک عمل ہےاور یقین نہیں آتا کہ امریکی حکومت اس طرح کے جرائم میں ملوث ہے جو امریکی اقدارکی سخت خلاف ورزی ہےلیکن جو حکومت قیادت میں ہے، وہ اس بات کو سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہے۔

’’ہمیں غذا کی ضرورت ہے‘‘
یونیسیف کے ترجمان جیمس ایلڈرنے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے دوران غزہ میں اپنے دورے کے تعلق سے کہا کہ لوگوں سے ملاقات کے دوران انہوں نے مجھ سے سب سے پہلی بات یہی کہی کہ ہمیں غذا کی ضرورت ہے۔ایلڈر نے مزید کہا کہ میں نے جنوبی غزہ میں رفح میں جتنے بھی لوگوں سے ملاقات کی انہوںنے مجھ سےسب سے پہلی بات یہی کہی تھی۔ وہ ایسااس لئے کہہ رہے تھے کہ دنیا اپنے فرائض سے واقف نہیں ہے۔ اگر وہ اپنے فرائض سے واقف ہوتی توایسے حالات کبھی پیدا نہیں ہوتے۔

 
 
 
 
 
View this post on Instagram
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Al Jazeera English (@aljazeeraenglish)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK