Inquilab Logo Happiest Places to Work

فرانس: کھلاڑیوں کے حجاب پر پابندی کے خلاف ایمنیسٹی انٹرنیشنل کا سخت احتجاج

Updated: July 17, 2024, 11:18 PM IST | London

پیرس اولمپکس ۲۰۲۴ء کیلئے فرانس میں جمع ہونے والی خاتون کھلاڑیوں کے حجاب پر عائد کردہ پابندی کے خلاف ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے سخت احتجاج کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جبکہ یہ عالمی اولمپک کمیٹی کے قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے الزام لگایا کہ جمہوریت کو ہتھیار بنا کر حکومت مسلم خواتین کے خلاف قوانین بنا رہی ہے۔

A hijab female athletes. Photo: INN
ایک با حجاب خاتون کھلاڑی۔ تصویر : آئی این این

ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے فرانس پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس موسم گرما میں پیرس میں ہونے والے اولمپک کھیلوں میں خاتون کھلاڑیوں پر حجاب پہن کر کھیلنے پر پابندی عائد کرکے بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ اس کے علاوہ ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کو بھی فرانس کے اس امتیازی قانون کی مخالفت نہ کرنے پر مورد الزام ٹہرایا ہے۔یوروپ میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی محقق اینا بلس نے کہا کہ’’ فرانسیسی کھلاڑیوں کے حجاب پر پابندی عائد کرکے یہ اعلان کرنا کہ یہ پہلا نسوانی یکسانیت والا اولمپک کا درجہ رکھتا ہے مضحکہ خیز ہے، جبکہ یہ کھیلوں کو بنیاد بنا کر نسوانی امتیاز کا مظاہرہ کررہا ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ یہ امتیازی سلوک ہی ہے کہ آپ اس بات پر نظر رکھیں کہ خواتین کیا پہنتی ہیں، جو مسلم خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور ان کے کھیلوں میں شمولیت پر برا اثر ڈالے گا، اس کے علاوہ یہ کھیلوں کی مقبولیت اور قبولیت کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی وجہ بنے گا۔

یہ بھی پڑھئے: بہار: محرم کے جلوس کے دوران فلسطینی پرچم لہرانے کیلئے ۳؍ افراد حراست میں

رپورٹ میں تفصیل درج ہے کہ کس طرح فرانس میں جمہوریت کے نام پر میدان میں حجاب پر پابندی کو قومی سطح پر جائز ٹہرا یا جاتا ہے لیکن یہ بین الاقوامی سطح پر قابل قبول نہیں ہے۔اور ایسے حالات پیدا کر دئے ہیں کہ اولمپک کا میزبان خود بین الا قوامی اولمپک کمیٹی کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے،جبکہ انسانی حقوق کے متعدد معاہدوں میں فرانس خود فریق ہے۔اس سال ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے اپنے مکتوب میں دعویٰ کیا تھا کہ عالمی اولمپک کمیٹی فرانس کواولمپک اور دیگر کھیلوں میں حجاب پر پابندی کا اپنا فیصلہ واپس لینےپر مجبور کرنے میں ناکام رہا ہے۔جبکہ فرانس کا قانون کمیٹی کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔اور مذہبی آزادی کی مختلف ملکوں میں مختلف انداز میں تعریف کی جاتی ہے۔فرانس یوروپ کا واحد ملک ہے جس نے کھیلوں میں حجاب پر پابندی عائد کی ہے، جو دیگر کھیلوں کے اداروں کے قوانین کے بھی خلاف ہے جیسے فیفا، بین الاقوامی والی بال فیڈریشن، بین الاقوامی باسکیٹ بال فیڈریشن۔
باسکیٹ بال کھلاڑی ہیلین با نے ایمنیسٹی سے کہا کہ فرانس کی جانب سے پابندی اولمپک کے چارٹر، ہمارے حقوق ،اقدار اور آزادی کے بھی خلاف ہے۔میرے خیال میں یہ فرانس کیلئے شر مندگی کا باعث بنے جا رہا ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’ ذہنی طور پر بھی وہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے جب خاص طور پر آپ کو خارج کیا جاتا ہے،آپ بینچ پر کھڑے ہوتے ہیں اور ریفری آپ سے اسٹینڈ پر جانے کو کہتا ہے، یہ واقعی شرمناک لمحہ ہوتا ہے۔‘‘ 

یہ بھی پڑھئے: فیفا: ارجنٹائنا کے کھلاڑیوں کے ذریعے لگائے گئے نسل پرستانہ نعروں کی تحقیق کا حکم

ایک اور خا تون کھلاڑی نے کہا کہ ’’ یہ افسوس ناک ہے یہاں تک کہ شرمنا ک ہے کہ ۲۰۲۴ء کے اس موقع پر محض کپڑے کے ایک ٹکڑے کی بدولت آپ کا خواب چکنا چور ہو جائے۔ ‘‘ ایمنیسٹی نے ایک اعلامیہ جاری کر کے کہا کہ ’’ گزشتہ کئی سالوں سے فرانس نے جمہوریت کو ہتھیار بنا کر ہر ایسے قانون اور پالیسی کو نافذ کر رہی ہے جو غیر متناسب طور پر مسلم خواتین کو متاثر کر رہے ہیں۔اور یہ سب گزشتہ بیس سالوں سے مسلم خواتین اور لڑکیوں کے لباس کے خلاف ہونے والی نفرت انگیز مہم کے زیر اثر ہو رہا ہے ،جو تعصب،نسل پرستی،اور اسلام دشمنی میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔
اجتماعی حجابی فٹبال کی شریک صدر فوندیارہ نے ایمنیسٹی سے کہا کہ’’ ہماری لڑائی سیاسی یا مذہبی نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے کھیلوں میں حصہ لینے کے انسانی حقوق پر مرکوز ہے۔‘‘بلس نے کہا کوئی بھی قانون ساز یہ طے نہیں کر سکتا کہ کوئی عورت کیا پہنے اور کیا نہ پہنے، اور نہ ہی وہ عورت کو اس بات پر مجبور کر سکتا ہے کہ وہ کھیل، مذہب ،عقیدےاور ثقافت میں سے کس کا انتخاب کرے۔اب بھی وقت ہے کہ فرانسسی حکام ، کھیلوں کی فیڈریشن، اور بین الاقوامی کھیل کمیٹی صحیح فیصلہ کرتے ہوئے،موسم گرما اولمپک اور دیگر تمام کھیلوں اور ہرسطح پر کھلاڑیوں کے حجاب پر پابندی کے اپنے فیصلے کو واپس لے لے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK