• Fri, 06 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہندوستان: اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش، چار ماہ میں ۱۳۴؍ معاملات

Updated: June 18, 2024, 1:36 PM IST | New Delhi

فری اسپیچ کلیکٹیو کی رپورٹ کے مطابق جنوری تا اپریل ۲۰۲۴ء، ہندوستان میں اظہارِ رائے کی آزادی کے خلاف ۱۳۴؍ معاملات درج ہوئے ہیں جن میں صحافیوں، ماہرین تعلیم، یوٹیوبرز، طلبہ اور دیگر شہریوں کو ہراساں کرنا، حملے، گرفتاریاں اور سینسر شپ شامل ہیں جبکہ قومی میڈیا بلا خوف نفرت پر مبنی ایجنڈا عام کررہا ہے۔ دوسری جانب، آزاد اور غیر متعصب میڈیا کو سزا اور کارروائیوں کا سامنا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

بدھ کو شائع ہوئی ’’فری اسپیچ کلیکٹیو‘‘ کی ایک تحقیق کے مطابق رواں سال جنوری سے اپریل کے درمیان ملک میں آزادانہ تقریر کی خلاف ورزیوں کے کم از کم ۱۳۴؍واقعات درج ہوئے ہیں۔ یہ تنظیم آزادانہ تقریر کی خلاف ورزیوں کی نگرانی اور تجزیہ کرتی ہے۔ یہ ان افراد اور تنظیموں کو حمایت اور یکجہتی بھی فراہم کرتی ہے جنہیں اظہار رائے کی آزادی پر حملوں کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں بیان کردہ آزادی اظہار کی خلاف ورزیوں میں صحافیوں، ماہرین تعلیم، یوٹیوبرز، طلبہ اور دیگر شہریوں کو ہراساں کرنا، حملے، گرفتاریاں اور سینسر شپ شامل ہے۔ لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی اور دھمکیوں کے واقعات اور انٹرنیٹ بند کرنے کے معاملات کو بھی آزادی اظہار کی خلاف ورزیوں میں شامل کیا گیا ہے۔ 
رپورٹ کے مطابق سال کے آغاز سے اب تک ملک میں ۳۴؍صحافیوں پر حملے ہو چکے ہیں جن میں صحافی نکھل واگھلے بھی تھے جن کا ۹؍ فروری ۲۰۲۴ءکو ایک ہجوم نے اس وقت پیچھا کیا تھا جب وہ پونے میں کارکن وشمبھر چودھری اور انسانی حقوق کے وکیل عاصم سرودے کے ساتھ ایک جلسہ کیلئے جا رہے تھے۔ بی جے پی کے کارکنوں نے صحافی کی گاڑی پر سیاہی پھینکی اور پونے کے کھنڈوجی بابا چوک پر ہجوم نے گاڑی میں توڑ پھوڑ کی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واگھلے پر حملے سے ایک دن قبل اتراکھنڈ کے ہلدوانی میں ہجوم کے ذریعہ ۱۰؍ صحافیوں پر حملہ کیا گیا تھا جہاں ۲۰۰۲ء میں تعمیر کی گئی مریم مسجد اور عبدالرزاق زکریا مدرسہ کے انہدام کے بعد کشیدگی پھیل گئی تھی۔ اخبار امرت وچار کے ۴۸؍ سالہ فوٹو جرنلسٹ سنجے کنیرا کو ہلدوانی میں سر پر تیز دھار چیزسے حملہ کرنے کے بعد شدید چوٹیں آئی تھیں۔ 
فری اسپیچ کلیکٹو کی رپورٹ میں نیوز میڈیا پر سینسر شپ کے ۱۲؍واقعات کی فہرست دی گئی ہے جن میں آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف ایوانی ڈیاس کا معاملہ بھی شامل ہے۔ ڈیاس نے ۲۳؍ اپریل کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا تھا کہ انہیں دو سال تک ملک میں رہنے کے بعد اچانک ہندوستان چھوڑنا پڑا کیونکہ بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت نے انہیں بتایا کہ ان کے ویزے میں توسیع نہیں کی جائے گی کیونکہ ان کی رپورٹنگ مقررہ حدود سے تجاوز کر گئی تھی۔ 
ملک میں جنوری سے اب تک سوشل میڈیا، نیوز میڈیا، اکیڈمی اور تفریح کے شعبے پر پھیلی سینسر شپ کے مجموعی طور پر ۴۶؍واقعات درج ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ۲۲؍ جنوری کو رام مندر کے افتتاح سے عین قبل مرکزی حکومت نے تقریباً ۱۰۰؍سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا تھا۔ اس وقت آس پاس تشدد اور سینسر شپ کے کئی دیگر واقعات بھی ریکارڈ کئے گئے۔ ۲۴؍جنوری کو پونے میں فلم ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے ۷؍ طلبہ کے خلاف کیمپس میں ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کے انہدام کے متعلق پوسٹر آویزاں کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ یہ اس کے ایک دن بعد ہوا جب ایک ہندوتوا ہجوم کیمپس میں گھس آیا، نعرے لگائے اور بینر کو نذر آتش کیا، جس پر لکھا تھا: ’’بابری کو یاد کرو، آئین کی موت۔ ‘‘ان افراد نے مبینہ طور پر اسٹوڈنٹ یونین کے صدر مینکپ نوکوہام، جنرل سیکریٹری سیانتن چکرورتی اور دو دیگر پر بھی حملہ کیا، جن میں ایک طالبہ بھی شامل تھی۔ انہیں اسپتال داخل کرنا پڑا تھا۔ 
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ رام مندر کے افتتاح کے بعد کئی ریاستوں میں دستاویزی فلم ’’رام کے نام‘‘ کی اسکریننگ میں خلل پڑا۔ یہ ۱۹۹۲ء کی ایک ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم ہے جو فلمساز آنند پٹوردھن نے ایودھیا میں سابقہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کیلئے ہندوتوا گروپوں کی مہم کے بارے میں تھی۔ رپورٹ کے مطابق دستاویزی فلم کی اسکریننگ کو ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز سے دلت طالب علم اور پی ایچ ڈی اسکالر رامداس پرینی سیونادن کی دو سال کی معطلی کی ایک وجہ قرار دیا گیا تھا۔ 
 رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ’’آزادی اظہار رائے کو سلب کرنے کے ریکارڈ شدہ اعداد و شمار واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کا کیا حال ہے جبکہ غالب میڈیا کے کھلے عام متعصب طبقے بے خوف ہو کر تقسیم کرنے والے ایجنڈے کی با ت کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف آزاد اور غیر متعصب میڈیا کو سزا اور کارروائی کا سامنا ہے، علاوہ ازیں، انہیں سامعین اور ناظرین تک پہنچنے کیلئے جدوجہد کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK