۲۰۵۰ء تک ملک میں ۴۵؍ کروڑ افراد موٹاپے کا شکار ہوں گے، ماہرین کے مطابق ہم اپنی ہلچل کو بڑھائیں اور کار آمد غذا کھائیں
EPAPER
Updated: August 22, 2025, 12:03 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
۲۰۵۰ء تک ملک میں ۴۵؍ کروڑ افراد موٹاپے کا شکار ہوں گے، ماہرین کے مطابق ہم اپنی ہلچل کو بڑھائیں اور کار آمد غذا کھائیں
کبھی ہندوستان میں بھوک ایک اجتماعی صدمہ تھی۔ بنگال کے۱۷۷۰ء کے قحط سے لے کر۱۹۴۳ء تک کے تباہ کن قحط تک لاکھوں انسان غذا کے ایک ایک دانے کو ترستے ہوئے جان کی بازی ہار جاتے تھے۔آج بظاہر منظرنامہ بدل چکا ہے۔ شاپنگ مال میں چمکتے ہوئے فاسٹ فوڈ کے کاؤنٹر، ڈیلیوری ایپ کی دو انگلیوں کی کلک اور کیلوری سے بھرے ہوئے پیکٹ، ہر طرف ’فراوانی‘ کا تاثر دیتے ہیںمگر اسی فراوانی نے ایک نئی اور کسی حد تک خاموش بیماری کو جنم دیا ہے جو ہے موٹاپا۔ تحقیقی جرنل دی لانسیٹ کی رپورٹ کے مطابق۲۰۵۰ء تک ملک میں ۴۵؍کروڑ سے زیادہ افراد زائد وزن یا موٹاپے کا شکار ہوں گے۔یعنی ہر تیسرا ہندوستانی اس وبا کی زد میںہو گا۔ یہ صرف صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی، تاریخی اور حیاتیاتی سانحہ ہے جسے سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
یہ کہنا کہ لوگ بے تحاشہ کھا رہے ہیں اور چل پھر نہیں رہے، اس سنگین سوال کا انتہائی سادہ جواب ہے۔ ہندوستان میں موٹاپے کا بحران تین اہم ستونوں پر کھڑاہے پہلاتاریخی قحط اور بقا کا خوف دوسرا ہماری جینیات کا بچا کر رکھنے والا فطری نظام اور تیسرا جدید شہری طرزِ زندگی۔ جب کئی نسلیں مسلسل قحط اور بھوک کا سامنا کرتی ہیں تو ان کے جسم میں یہ فطری دفاعی نظام پیدا ہوجاتا ہے کہ ’’کم خوراک میں زیادہ چربی محفوظ کرو‘‘ تاکہ اگلے فاقے میں زندہ رہا جاسکے۔
یہ حکمتِ عملی اس وقت کارآمد تھی جب مزدور آٹھ آٹھ گھنٹے دھوپ میں زمین کھودتے تھے، کھانا کم ملتا تھا اور چربی کو جمع رکھنا ہی زندگی کی ’انشورنس پالیسی‘ تھی۔مگر آج آفس کا ایئرکنڈیشنڈ کمرا، میٹنگ اور لیپ ٹاپ اور سینڈوچ، چائے، سموسے، پیزا کی دستیابی نے اس جسم کو الٹا وبال بنا دیا ہے۔ جسم کیلوریز جلا نہیں پا رہا، مگر ہمارےجینز اب بھی سمجھ رہے ہیں کہ شاید قحط آنے والا ہے — لہٰذا ہر حرارے کو چربی میں بدل کر محفوظ کر لو۔دنیا بھر میں موٹاپا ناپنے کے لئے باڈی ماس انڈیکس کا استعمال عام ہے لیکن ہندوستان جیسے ملک میں یہ پیمانہ مکمل سچ نہیں بتاتا۔کوکیلابین اسپتال کے سرجن ڈاکٹر انکت پوتدار کے مطابق ہندوستانیوں کے جسم میں چربی زیادہ تر پیٹ کے اردگرد جمع ہوتی ہے جو دل، لبلبے اور جگر پر براہِ راست اثر ڈالتی ہے۔ لہٰذا ایسا شخص جس کا بی ایم آئی نارمل نظر آتا ہے، دراصل وہ بھی خطرناک حد تک فربہ ہو سکتا ہے اسی لئے عالمی ادارۂ صحت نے ایشیائی شہریوں کیلئے بی ایم آئی کی حدود تبدیل کردی ہیں۔ طبی ماہر ڈاکٹر کیدار پاٹل کے مطابق >ہندوستانی مرد و خواتین دونوں مغربی اقوام کے مقابلے میں میٹابولک اعتبار سے زیادہ خطرات میں رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات دبلا پتلا دکھائی دینے والا شخص بھی اندرون جسم شدید چربی جمع کیے ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر موٹاپا ہماری جینیات میں ’پروگرام‘ ہو چکا ہے تو کیا اسکے خلاف کسی لڑائی کا فائدہ بھی ہے؟ ڈاکٹر پوتدار کے مطابق لڑائی ممکن ہے لیکن حکمت کیساتھ۔ کریش ڈائٹ فضول ہے۔ جسم اسے ’قحط جیسے حالات سمجھ کر فوراً ضدی رویّہ اپناتا ہے، اسکی وجہ سے میٹابولزم سست اور بھوک تیز ہو جاتی ہے ۔ نیزبہترین پروٹین سے بھرپور غذا کھائی جائے اور ’اسٹرینتھ ٹریننگ ‘ کی جائے۔ جذباتی اور فطری عادات کو بدلنے کا پہلا مرحلہ یہی ہے کہ ہم اپنی ہلچل کو بڑھائیں۔ خوراک کی صنعت میں پروسیسڈ اور شوگر والی مصنوعات پر ضابطے سخت کئےجائیں اور سب سے اہم عوام کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے اُن کے غذا کے استعمال کےپیٹرن کوسمجھ کر پالیسی بنائی جائے ۔ہمارا اصل مقصد ’پرفیکٹ باڈی‘ حاصل کرنا نہیں بلکہ متوازن میٹابولزم اور دیرپا صحت کی طرف لوٹنا ہونا چا ہئے۔ وقت آگیا ہے کہ جسم کو سزا دینے کے بجائے ہم اسے سمجھیں۔