دعوت اسلامی کے اجتماع کے آخری دن شرکاء کا سیلاب امنڈ پڑا۔ علماء نے انسانیت نوازی کا پیغام دیتے ہوئے کہا: نفرت کو محبت اور معافی ودرگزر اور اچھے اخلاق سے ختم کیا جاسکتا ہے
آزادمیدان (وادیٔ نور) میں اجتماع کے آخری دن شرکاء علماء کا بیان سنتے ہوئے۔ تصویر: شاداب خان
بارگاہِ ایزدی میں امن وسلامتی خیر و عافیت کی رقت آمیز دعا پر سہ روزہ سنی اجتماع اتوار کی شب میں ۱۰؍ بجے ختم ہوا۔ علماء نے آخری دن خصوصیت سے انسانیت نوازی کا پیغام دیا اور یہ تلقین کی کہ نفرت کو محبت، معافی ودرگزر اور اچھے اخلاق سے ختم کیا جاسکتا ہے۔
اجتماع میں شرکاء کے جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے مولانا قمر الزماں خاں اعظمی نے ’’اسلام کا نظامِ محبت اور اخوت‘‘ کے موضوع پر اپنے خطاب میں مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ نفرت کا جواب محبت اور اعلیٰ کردار سے دیں۔ اس تعلق سے فتح مکہ کے موقع پر امام الانبیاء کی معافی کی عظیم مثال ہمارے سامنے ہے جو دراصل تاریخ انسانی کا سب سے ’’بڑا اخلاقی انقلاب‘‘ تھا۔ ایسی مثال پیش کرنے سے دنیا ہمیشہ قاصر وعاجز رہے گی۔ مولانا اعظمی نے اس بات پر زور دیا کہ یہ رحمت و معافی صرف عام لوگوں کے لئے نہیں تھی بلکہ آپؐ نے ہندہ (جس نے آپ کے چچا حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبایا تھا) اور وحشی (قاتل ِ حمزہ) جیسے سخت ترین دشمنوں کو بھی معاف فرما دیا۔ یہ تلوار کی نہیں بلکہ اخلاق اور محبت کی فتح تھی جس نے دشمنوں کو بھی اپنا بنا لیا۔مولانا قمر الزماں خان اعظمی نے موجودہ حالات کے تناظر میں کہا کہ اگر آج بھی مسلمان ظلم و جبر کے ماحول میں اسی صبر اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں تو دنیا پر چھائے نفرت کے بادل چھٹ جائیں گے۔ ہمیں اپنے کردار وعمل سے دنیا کو اسلام کا وہ پرامن اور تابناک چہرہ دکھانا ہوگا جو دشمن کو بھی احترام پر مجبور کردے۔
امیر سنی دعوت اسلامی مولانا محمد شاکر علی نوری نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’انسان ہونا ہمارا انتخاب نہیں، یہ قدرت کی عطا ہے لیکن اپنے اندر انسانیت بنائے رکھنا ہمارا انتخاب ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد خالق کی عبادت اور انسانیت کی خدمت ہے۔ اگر مذہب سے انسانیت اور خدمت نکال دی جائے تو صرف عبادت رہ جاتی ہے اور محض عبادت کیلئے پروردگار کے پاس فرشتوں کی کمی نہیں۔‘‘ مولانا نوری نے حضرت احنف بن قیس کا حوالہ دیتے ہوئے انسانیت کی تین شرائط بیان کیں۔ اوّل دولت مند ہونے کے باوجود عاجزی اختیار کرنا ، دوسرے سزا دینے پر قدرت رکھنے کے باوجود معاف کر دینا اور تیسرے بدلے کی امید رکھے بغیر احسان کرنا۔ مولانا شاکر نوری نے یہ فرمان مصطفےٰ کی روشنی بھی بتایا کہ انسانی ہمدردی، بھائی چارہ، پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی، حسن سلوک، معافی ودرگزر اور انسانیت کیلئے نافع بننا یہ وہ اوصاف ہیں جس سے زندگی خوشگوار ہوگی اور مشکلات آسانیوں میں بدل جائیں گی۔
اجتماع کے آخری دن بھی مفتی نظام الدین مصباحی نے مختلف مسائل سمجھائے اور حاضرین کے سوالوں کے شرعی جوابات دیئے۔ حاضرین کی جانب سے یہ مسائل قاری رضوان خان کے ذریعے پوچھے گئے۔
آخری دن ختم بخاری شریف کی خصوصی مجلس ہوئی اور نجمی علماء کو سند فراغت دی گئی۔
اتوار کو بھی حسب ترتیب تہجد کے وقت سے ہی خصوصی اعمال شروع ہوگئے تھے ۔ فجر بعد، اشراق اور چاشت کے بعد، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء بعد اصلاحی بیانات کا سلسلہ جاری رہا اور شرکاء کا جم غفیر علماء کے بیانات سے استفادہ کرتا نظرآیا۔
نمائندہ انقلاب نے دیکھا کہ پنڈال کے علاوہ میدان کے الگ الگ حصوں میں لگائے گئے اسکرین کے سامنے بھی بڑی تعداد میں شرکائے اجتماع بیان سماعت کرر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس کے جوان اور رضاکار گشت کررہے تھے۔
دعا کے بعد منتظمین کی جانب سے خصوصیت سے یہ اپیل کی گئی کہ اجتماع گاہ سے نکلنے میں عجلت نہ کریں، ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے اور راستے میں بھی شان اسلام کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھروں کو جائیں۔