آسام کانگریس کے نومنتخب صدر اور لوک سبھا میں کانگریس کےڈپٹی لیڈر گورو گوگوئی نےمذکورہ ریاستوں کی بی جے پی حکومتوں پر سنگین الزام لگائے۔
EPAPER
Updated: May 29, 2025, 1:13 PM IST | Agency | New Delhi
آسام کانگریس کے نومنتخب صدر اور لوک سبھا میں کانگریس کےڈپٹی لیڈر گورو گوگوئی نےمذکورہ ریاستوں کی بی جے پی حکومتوں پر سنگین الزام لگائے۔
کانگریس نے بدھ کو الزام لگایا کہ بی جے پی کی حکومت والی شمال مشرقی ریاستیں سرکاری تحفظ میں کوئلے کی غیر قانونی کانکنی اور منشیات کی تجارت کا اڈہ بن گئی ہیں۔ آسام کانگریس کے نئے صدر اور لوک سبھا میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر گورو گوگوئی نے یہاں منعقدہ پریس کانفرنس میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ مرکز اور متعلقہ ریاستی حکومتوں نے ان دونوں مسائل پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:سدھو مُوسے والا کے والد بَل کور سنگھ کا انتخابی سیاست میں اترنے کا اعلان
گورو گوگوئی نے دعویٰ کیا کہ اپریل میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے میگھالیہ اور آسام میں کئی مقامات پر چھاپے مارے تھے۔ ای ڈی کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ میگھالیہ اور آسام کے لوگوں کے ایک `سنڈیکیٹ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ غیر قانونی کان کنی سے نکالے گئے کوئلے سے لدے ٹرک بغیر کسی چیکنگ کے میگھالیہ کی سرحدوں کو پار کر کے آسام میں داخل ہوئے۔ وہاں دستاویزات تیار کی گئیں، جس سے معلوم ہوکہ کوئلے کی قانونی طور پر کان کنی کی گئی تھی۔ انہوں نے کہاکہ ’’تفتیش سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ یہ سنڈیکیٹ تحفظ کے نام پر کان کے مالکان سے فی ٹرک۲۷ء۱؍ لاکھ روپے سے۵ء۱؍ لاکھ روپے تک کی رقم وصول کرتا تھا۔ تلاشی کے دوران ای ڈی نے۵۸ء۱؍ کروڑ روپے کی نقدی، کئی ڈیجیٹل آلات اور دو گاڑیاں ضبط کیں۔ ‘‘
کانگریس لیڈر نے اس معاملے میں کوئی گرفتاری نہ ہونے اور ٹھوس تحقیقات نہ ہونے پر حیرت کا اظہار کیا اور سوال قائم کیا کہ کیا ای ڈی کا چھاپہ صرف جبری وصولی کا ذریعہ تھا۔
آسام کانگریس کے صدر نے پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) کی تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ آسام میں تقریباً۲۴۵؍ `غیر قانونی کانیں چل رہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ’’ایسے حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کس کی سرپرستی میں ہو رہا تھا؟ کیا ای ڈی کا چھاپہ صرف ڈیڑھ کروڑ روپے کی نقدی ضبط کرنے تک محدود تھا؟ ای ڈی کی کارروائی کے بعد ریاستی حکومت نے معاملے کی جانچ کیوں نہیں کی اور مرکزی حکومت نے اب تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟‘‘